Daily Roshni News

کیا نومبر میں ایلین کا حملہ ہونے والا ہے؟

کیا نومبر میں ایلین کا حملہ ہونے والا ہے؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نومبر کی ایک سرد رات میں آپ یونہی آسمان کو تک رہے ہیں کہ آپ کی آنکھیں اس وقت حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں جب ایک اڑن طشتری نما چیز آسمان سے نیچے اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

اگرچہ یہ ایک افسانوی تخیل ہے لیکن یہ منظر کشی بے وجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ ہے جس نے پچھلے ایک ماہ کے دوران سائنسی دنیا میں کئی شکوک و شبہات اور سوالات کو جنم دیا ہے۔

حال ہی میں ایک ایسی چیز کو ہمارے نظام شمسی میں داخل ہوتے دیکھا گیا جو نہ کوئی سیارچہ ہے اور نہ ہی ایسے دمدار ستاروں میں سے ہے جن سے ہم اب تک واقف ہیں بلکہ اس کی مداروی خصوصیات اور رفتار سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی کا حصہ ہی نہیں ہے۔

تو پھر آخر یہ کیا شے ہے؟

 یہ 3I/ATLAS نامی ایک بین النجمی (interstellar) جسم ہے جو جولائی 2025 میں دریافت ہوا اور اب سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہلچل مچا رہا ہے۔

دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار کی جانے والی ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ایوی لوئب اور ان کی ٹیم نے ریاضیاتی حساب کتاب کے ذریعے دل کو دہلا دینے والے شکوک اور سوالات کا اظہار کیا ہے جن میں سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی قدرتی فلکی جسم ہے یا پھر کوئی ایسی چیز ہے جو کسی دوسری ذہین مخلوق کی طرف سے زمین کی طرف ایک خفیہ مشن پر بھیجی گئی ہے؟

آئیے! اس حیرت انگیز خلائی راز کا تجزیہ کرتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس جسم کو ایلینز کا خلائی مشن کہنے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟۔

یکم جولائی 2025 کو چلی میں واقع ATLAS (Asteroid Terrestrial-impact Last Alert System) ٹیلی سکوپ نے ایک تیزی سے حرکت کرتی ہوئی چیز کو دریافت کیا جسے پہلے پہل عارضی طور پر A11pl3Z کہا گیا اور چند گھنٹوں بعد ہی اسے باضابطہ طور پر 3I/ATLAS یا C/2025 N1 (ATLAS) کا نام دیا گیا۔ یہ ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا تیسرا بین النجمی جسم ہے اور اس سے پہلے 2017 میں اومواموا اور 2019 میں 2I/بوریسوف نامی اجسام بھی دیکھے جا چکے ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ہمارے نظام شمسی کے باہر سے آئے تھے۔

اگر یہ تیسرا ایسا جسم ہے تو اس میں اتنا خاص کیا ہے؟

دراصل اٹلس تھری آئی نے اپنی رفتار، سائز اور عجیب و غریب مدار کی وجہ سے سب کو چونکا دیا ہے اور یہ پچھلے تمام بین النجمی اجسام سے زیادہ عجیب و غریب ثابت ہو رہا ہے۔

 یہ 58 کلومیٹر فی سیکنڈ یا تقریباً 130,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف بڑھ رہا ہے جو اومواموا اور بوریسوف دونوں کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہے جبکہ اس کا مدار بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک نہایت ہائپر بولک (hyperbolic) راستے پر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ سورج کے گرد چکر نہیں لگائے گا بلکہ سورج کے نزدیک سے گزر کر واپس کہکشاں کی وسعتوں میں چلا جائے گا۔ اس کا مدار زمین کے مدار سے صرف 5 ڈگری کے زاویے پر ہے جو ایک اور غیر معمولی اتفاق ہے۔ اس کی چمک اور سائز نے بھی سائنسدانوں کو حیران کر دیا کیونکہ یہ اندازاً 10 سے 20 کلومیٹر چوڑا ہے یعنی اومواموا سے کئی گنا بڑا بلکہ اب تک کا سب سے بڑا بین النجمی جسم ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہاں کہانی ایک سسپنس سے بھرپور موڑ پر آتی ہے کیونکہ کچھ مشاہدات میں اس کا کوئی ہالہ یا دم دکھائی نہیں دی جو عام دمدار ستاروں کے لیے نہایت عجیب ہے اور اس طرز عمل کی وضاحت روایتی نظریات کے ذریعے مشکل ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایوی لوئب کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں زمین کے علاوہ دیگر مقامات پر زندگی کی تلاش اور نشانیوں کے  موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ گویا ایلین کہ تلاش ان کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس پر ان کا مطالعہ اور تحقیق بے حد وسیع ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں ایڈم ہبرڈ اور ایڈم کرول کے ساتھ ایک مقالہ شائع کیا جس میں کہا گیا کہ 3I/ATLAS کی کچھ خصوصیات واضح طور پر “غیر فطری” ہیں۔

لوئب کے مطابق اس کی رفتار اور مدار اتنے درست ہیں کہ یہ کسی ذہین مخلوق کی طرف سے بنایا گیا ایک خلائی جہاز ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا نظام شمسی کے کئی سیاروں مثلاً زمین، مریخ اور مشتری وغیرہ کے بہت قریب سے گزرنا ایک “جاسوسی مشن” کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ نومبر 2025 میں یہ سورج کے قریب ترین مقام یا پیری ہیلین (perihelion) پر ہوگا اور اس وقت یہ زمین سے دیکھنے پر سورج کے پیچھے چھپ جائے گا جو ایک خفیہ خلائی چال ہو سکتی ہے۔

لوئب کا کہنا ہے کہ اگر یہ کوئی خلائی جہاز ہے تو یہ ہمارے نظام شمسی میں رہنے کے لیے اپنی رفتار کم کر سکتا ہے یا شاید مریخ اور مشتری پر جاسوسی کے لیے “چھوٹے آلات” یا پروب (Probe) بھی چھوڑ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ لوئب نے خبردار کیا ہے کہ ہمیں اٹلس تھری آئی کو عام خلائی جسم نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے ایلین خلائی جہاز ہونے کے امکانات پر سائنسی انداز میں غور و فکر کرتے ہوئے خلائی مخلوق کے حملے سمیت ہر قسم کے نتائج کے لیے مناسب تیاری کر لینی چاہیے۔

لوئب اور اس کے ساتھیوں کے دلائل یکسر نظر انداز بھی نہیں کیے جا سکتے کیونکہ یہ دلائل مفروضات ہی سہی لیکن ان کی بنیا سائنسی مشاہدات پر رکھی گئی ہے۔

مثال کے طور پر اٹلس تھری آئی کا مدار نظام شمسی کی سطح سے تقریباً ہم آہنگ ہے لیکن یہ الٹی سمت میں گھومتا ہے جس کا امکان قدرتی اجسام کے لیے صرف 0.2 فیصد تک ہے اور یہ خاصیت کسی ذہین ڈیزائن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کا سائز تقریباً 20 کلومیٹر ہے جو اومواموا سے 100 گنا بڑا ہے اور بین النجمی اجسام کے ماڈلز پر تحقیق کی رو سے کسی ایسے جسم کا اتنا بڑا سائز ہونا بے حد نایاب ہے جس سے یہ ایک مصنوعی طور پر تیار کیا گیا جسم لگتا ہے۔ عام دمدار ستاروں کے برعکس اس کے گرد گیس یا گرد کی کوئی واضح یا مستقل دم نہیں دیکھی گئی جو سورج کے اتنا قریب آنے پر صاف ظاہر ہو جانا چاہیے تھی کیونکہ عام دمدار ستاروں کا یہی عمومی طرز عمل ہے۔ یہ زہرہ، مریخ اور مشتری کے بہت قریب سے گزرے گا جس کا امکان کسی فطری دم دار ستارے کے لیے صرف 0.005 فیصد ہے اور اتنے نزدیک سے گزرنے کی بدولت یہ کسی جاسوس مشن کی طرح لگتا ہے۔ 29 اکتوبر 2025 کو یہ سورج کے قریب ہوتے ہوئے زمین سے دیکھنے پر چھپ جائے گا جو “ریورس سولر اوبرتھ مینیوور” نامی قدم کے لیے موزوں وقت ہو سکتا ہے جس کے ذریعے کوئی خلائی جہاز سورج کی کشش کی مدد سے اپنی رفتار کم کر کے نظام شمسی میں رہ سکتا ہے اور یہ ایک ایسی چال ہے جو ایندھن بچانے اور خلائی جہاز کو تیز رفتاری سے مطلوبہ سمت میں لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ کہکشاں کے روشن مرکز کی جانب سے آیا ہے جہاں سے آتے ہوئے جولائی 2025 سے پہلے اسے دیکھنا مشکل تھا جو اپنے آپ کو چھپانے کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اسے اپنی سمت نظام شمسی کے سیاروں خصوصاً مریخ، زہرہ یا مشتری کی جانب موڑنے کے لیے صرف 5 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار کی تبدیلی اور نسبتاً کم توانائی درکار ہوگی اور یہ امر مشن کی عمدہ ٹیکنالوجیکل منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ جسم زمین پر اترے یا بہت زیادہ قریب تک آئے اور اس ضمن میں لوئب نے “ڈارک فاریسٹ ہائپوتھیسس” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خلائی مخلوق کا خاموشی سے انسانی تہذیب اور زمین کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجا گیا کوئی “انڈر کور” مشن ہو اور اس صورت میں یہ چپ چاپ زمین کے قریب سے گزر جائے گا لیکن ہمارے سیارے اور نظام شمسی سے متعلق تمام مطلوبہ ڈیٹا اکٹھا کر کے ساتھ لے جائے گا جسے ایلین مستقبل کے مشنز کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

یہ تمام دلائل 3I/ATLAS کو ایک حل طلب سائنسی پہیلی بناتے ہیں لیکن سائنسدانوں کی اکثریت اب بھی ان نکات کو محض قیاس آرائیوں کا درجہ دے رہی ہے اور فی الحال لوئب کا مفروضہ سائنسی برادری میں متنازعہ حیثیت رکھتا ہے جسے کوئی خاص قبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔

 کینیڈا کی یونیورسٹی آف ریجینا کی پروفیسر سیمانتھا لاولر نے لوئب کے خیالات کو “بے بنیاد” قرار دیا اور کہا کہ اب تک حاصل شدہ تمام شواہد 3I/ATLAS کو ایک فطری دمدار ستارہ ہی ثابت کرتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فلکی طبیعیات کے ماہر کرس لنٹوٹ نے بھی اس مفروضے کے لیے “نان سینس” کا لفظ استعمال کیا اور بتایا کہ اس کی رفتار، مدار اور دم کی موجودگی اسے ایک قدرتی بین النجمی دمدار ستارے ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی ماہرین کے مطابق ابتدائی مشاہدات سے پتہ چلا ہے کہ 3I/ATLAS کے جسم میں ایک ہالہ (coma) اور دم (tail) موجود ہے جو ایک دمدار ستارے کی خصوصیات ہیں اور دریافت کے فوراً بعد ہی 2 جولائی کو کینیڈا-فرانس-ہوائی ٹیلی سکوپ اور لوول ڈسکوری ٹیلی سکوپ نے اس کی دم کی تصدیق کر دی تھی جو تقریباً 25,000 کلومیٹر لمبی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا رنگ بھی پچھلے قدرتی بین النجمی دمدار ستارے 2I/بوریسوف سے ملتا جلتا ہے اور ان تمام مشاہداتی شواہد کی بنا پر زیادہ تر سائنسدان اٹلس تھری آئی کے کسی ایلین خلائی جہاز ہونے کے امکان کو مسترد کر رہے ہیں۔

اب چاہے اٹلس تھری آئی ایک دمدار ستارہ ہو یا ایک ایلین خلائی جہاز لیکن ہر حال میں یہ سائنسدانوں کے لیے اپنی نوعیت کے واحد جسم کے مطالعے کا ایک نادر موقع ضرور ہے اور اسی لیے مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ڈیرل سیلیگمین اور ان کی ٹیم اسے قریب سے دیکھنے کے لیے ایک خلائی مشن کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیم میں شامل ایک طالب علم اتسوہیرو یاگینوما کا کہنا ہے کہ اگر ہم دسمبر 2025 تک ایک خلائی جہاز اٹلس تھری آئی کی طرف بھیجیں تو ہم اسے بہت قریب سے دیکھ سکتے ہیں اور یہ “تاریخ میں صرف ایک بار” ملنے والا موقع ہو سکتا ہے۔

اگر آپ فلکیات کے شوقین ہیں تو اچھی خبر یہ ہے کہ 3I/ATLAS کو ستمبر 2025 تک زمینی ٹیلی سکوپس سے دیکھا جا سکے گا اور ورچوئل ٹیلی سکوپ پروجیکٹ جیسی ویب سائٹس اس کی لائیو سٹریمنگ بھی کریں گی جس کے ذریعے آپ گھر بیٹھے بھی اسے دیکھ سکیں گے۔ لہٰذا اگر آپ کو بھی کائنات میں دلچسپی ہے تو اپنی نظریں آسمان پر ہی رکھیں کیونکہ 3I/ATLAS شاید ہمیں کوئی ایسی کہانی سنا دے جو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دے۔

اگرچہ اٹلس تھری آئی کو ایلین خلائی جہاز کہنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی ایک لمحے کو فرض کریں کہ اگر لوئب کا مفروضہ درست ہوا تو کیا ہوگا اور کیا آپ کے خیال میں ہمیں نومبر میں ایلین کے حملے سے بچاؤ کے لیے تیار رہنا چاہیے؟

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

نوٹ: یہ آرٹیکل ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مفروضات پر مبنی ہے اور حتمی نتائج کے لیے مزید مشاہدات اور تحقیق کی ضرورت ہے۔

Loading