کیا ہم بلیک ہولز سے لامحدود توانائی نکال سکتے ہیں؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کائنات میں بلیک ہولز ہمیشہ سے ہی ایک پراسرار اور دلچسپ موضوع رہے ہیں، لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ ناقابل فہم قوت رکھنے والے بلیک ہولز ہمارے لیے لامحدود توانائی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں؟ جی ہاں، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مستقبل میں، ہزاروں یا لاکھوں سال بعد، انسانیت بلیک ہولز کے قریب رہ کر ان کی بے پناہ توانائی سے استفادہ کر سکتی ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ بلیک ہولز میں اتنی توانائی چھپی ہو سکتی ہے کہ اس سے پوری زمین کی توانائی کی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔
بلیک ہولز کائنات کے وہ مقامات ہیں جہاں مادہ اور توانائی اس قدر مرتکز ہوتے ہیں کہ ان کی کشش ثقل سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا، حتیٰ کہ روشنی بھی نہیں۔ لیکن بلیک ہول کے گرد چکر کاٹنے والے پلازما کے ذرات اور مقناطیسی فیلڈ لائنز میں ایسی توانائی پوشیدہ ہوتی ہے جسے ہم مستقبل میں نکال سکتے ہیں۔
بلیک ہول کا سب سے اہم حصہ اس کا “واقعاتی اُفق” ہوتا ہے، یعنی وہ مقام جہاں سے کوئی چیز واپس نہیں آ سکتی۔ بلیک ہول کے اندر گرنے والی تمام چیزیں، جیسے کہ ستارے، سیارے، یا کوئی اور مادہ، اس مقام سے گزرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتی ہیں۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق، اسی واقعاتی اُفق کے بالکل باہر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے توانائی نکالی جا سکتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم بلیک ہولز سے توانائی نکال سکیں؟ سائنسدانوں کے ایک نظریے کے مطابق، بلیک ہولز کے گرد گھومنے والے مقناطیسی فیلڈ لائنز کو مخصوص حالات میں توڑنے اور دوبارہ جوڑنے کے عمل سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل بالکل ویسا ہے جیسے زمین پر بجلی پیدا کرنے کے لیے مقناطیسی میدان اور کنڈکٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
جب بلیک ہول کے گرد گھومنے والے مقناطیسی فیلڈ لائنز ٹوٹتی اور جڑتی ہیں، تو پلازما کے ذرات کی رفتار ناقابل یقین حد تک اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ وہ بلیک ہول کے گرد موجود کشش ثقل سے آزاد ہو جاتے ہیں اور توانائی کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ توانائی کہاں سے آتی ہے؟ یہاں پر ایک دلچسپ تصور سامنے آتا ہے جسے “منفی توانائی” کہا جاتا ہے۔ بلیک ہول میں گرنے والے پلازما کے ذرات دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں: ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو بلیک ہول کے گھومنے کی مخالف سمت میں جاتا ہے اور دوسرا حصہ وہ جو بلیک ہول کی گھومنے کی سمت میں حرکت کرتا ہے۔ جو حصہ مخالف سمت میں جاتا ہے، وہ “منفی توانائی” کے ساتھ بلیک ہول میں گر جاتا ہے، اور اس عمل کے نتیجے میں بلیک ہول اپنی کچھ توانائی کھو دیتا ہے، جو کہ باہر کی طرف نکل آتی ہے۔ یہی توانائی ہے جسے مستقبل کی تہذیبیں حاصل کر سکتی ہیں۔
ہماری زمین سے کبھی کبھار بلیک ہولز سے نکلنے والے زبردست ریڈیئشن دھماکے نظر آتے ہیں جنہیں ہم “بلیک ہول فلیئرز” کہتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شاید یہ وہی عمل ہو جس کی بدولت یہ توانائی بلیک ہول سے نکلتی ہے۔ یہ دھماکے اس بات کا ثبوت ہو سکتے ہیں کہ بلیک ہولز میں جاری کچھ عمل توانائی کو باہر کی طرف پھینک رہے ہیں۔
آنے والے ہزاروں یا لاکھوں سالوں میں، اگر انسانیت اتنی ترقی کر گئی کہ وہ بلیک ہولز کے قریب جا سکے، تو یہ ممکن ہے کہ وہ اس لامحدود توانائی کو اپنے لیے استعمال کر سکے۔ تصور کریں، بلیک ہولز کے قریب بسنے والی تہذیبیں، جو بلیک ہول کی طاقتور توانائی کو اپنی دنیاؤں کو روشن کرنے اور ٹیکنالوجی کو چلانے کے لیے استعمال کر رہی ہوں گی!
یہ سب کچھ آج تو سائنس فکشن کی طرح لگتا ہے، لیکن ایک دن یہ حقیقت بن سکتا ہے۔ کیا ہم بلیک ہولز سے توانائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ کائنات کے یہ پراسرار اجسام ہماری توانائی کی ضروریات کو ہمیشہ کے لیے حل کر سکتے ہیں، لیکن یہ صرف وقت ہی بتا سکے گا کہ ہم اس حیرت انگیز نظریے کو حقیقت میں بدلنے کے کتنے قریب پہنچ پائیں گے۔
بلیک ہولز ہمیشہ سے سائنسدانوں کے لیے دلچسپ موضوع رہے ہیں، اور اب یہ ممکن ہے کہ وہ صرف تحقیق کا نہیں بلکہ ہماری توانائی کا بھی ذریعہ بن جائیں۔ کیا انسانیت بلیک ہولز کی ناقابل فہم توانائی کو قابو میں کر پائے گی؟ کیا ہم مستقبل میں بلیک ہولز کے قریب بستیاں بسا کر ان کی طاقت سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ یہ سوالات ابھی حل طلب ہیں، لیکن ایک بات یقینی ہے: بلیک ہولز ہمیں ہمیشہ حیران کرتے رہیں گے۔
ترجمہ و تلخیص: حمزہ زاہد۔
نوٹ: اس طرح کی مزید معلوماتی پوسٹس کیلئے مجھے فالو کریں۔ براہِ مہربانی اگر اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں تو اصل لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔