نہایت عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جن کا مقصد زندگی صرف اور صرف خلق خدا کی خدمت ،فلاح اور بھلائی ہوتاہے ۔بہت عظمت والی ہے وہ قوم جو انتہائی عظیم لوگ پیدا کرتی ہے ۔یہ لوگ زبان،ذات ،قبیلے ،علاقے اور مذہب کا فرق کیے بغیر ہر ایک سے محبت ،ہر ایک کی خدمت کرنے کے لئے اپنی توانایاں صرف کر دیتے ہیں ۔یہ لوگ چمکتے ستاروں کی مانند قوم کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔
ہمارے وطن عزیز کی ایسی ہی ایک ہستی کا نام عبدالستار ایدھی ہے ۔عبدالستار ایدھی 1928ء میں ہندوستان کی ریاست گجرات کے ایک گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد گرامی عبدالشکور ایدھی کپڑے کا معمولی سا کاروبار کرتے تھے ۔غربت کی وجہ سے عبدالستار ایدھی زیادہ نہ پڑھ سکے۔
آپ کو بچپن میں دو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ۔
ایک پیسہ وہ خود خرچ کرتے تھے اور ایک پیسہ کسی ضرورت مند کو دیتے تھے ۔جب وہ اُنیس برس کے ہوئے تو والدہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں ۔قیام پاکستان کے بعد 4ستمبر 1947ء کو خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی ۔1948ء میں میٹھا در میں لوگوں کی خدمت کرنے کی لگن کے تحت”بانٹوا میمن ڈسپنسری“میں کام کرنے لگے ۔پاکستان کے شمالی علاقے بشام میں 1972ء میں شدید زلزلہ آیا تو کراچی سے ایمبولنس لے کر زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے پہنچ گئے۔
آپ کی طبیعت میں سادگی انتہا درجے کی تھی ۔حد تو یہ ہے کہ زندگی بھر ایک ہی انداز کا لباس پہنا ۔ملیشیا یعنی کھدر کے کپڑے کا کرتا پاجامہ، جناح کیپ اور اسفنج کی چپلیں ۔ان کے پاس صرف تین جوڑے تھے ۔خوراک میں دال چاول کھانا پسند کرتے تھے۔
آپ کو بہت سے اعزازات ملے جن میں سے چند یہ ہیں:
1۔ 2009ء میں یونیسکو کا”خدمت انسانیت ایوارڈ۔
2۔ 1992ء میں حکومت سندھ کا”سماجی خدمت گزار برائے پاکستان ایوارڈ“
3۔ جامعہ کراچی کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری۔
4۔ حکومت پاکستان کا سب سے بڑا سول ”نشان امتیاز“
5۔ 1997ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایدھی ایمبولنس کو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس کے طور پر شامل کیا گیا۔
8جولائی 2016ء کو یہ عظیم انسان اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔آپ کے انتقال پر سرکاری طور پر سوگ منایا گیا ۔آپ کا جسد خاکی آپ کے قائم کردہ ایدھی ولیج میں آپ کی وصیت کے مطابق سپرد خاک کیا گیا۔