Daily Roshni News

گھر آیا تو۔۔۔؟؟تحریر۔۔۔سارہ خان۔۔۔(قسط نمبر1)

گھر آیا تو۔۔۔؟؟

تحریر۔۔۔سارہ خان

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔گھر آیا تو؟۔۔۔تحریر۔۔۔سارہ خان )بیوی دکھ سے مسکراتے ہوئے بولی ، مجھے چھوڑ کر اس کے پاس گئے ، اب اسے چھوڑ کر میرے پاس آئے  ہو؟ الفاظ گم ہو گئے ۔ندامت سے آہستہ آواز میں اتنا کہہ سکا کہ پتہ نہیں یہ سب مجھ سے کیسے ہو گیا۔

150 سال قبل تک جاپان میں حکم رانوں اور بااثر افراد کے محافظوں کو سامورائی کہتے تھے۔ ان کا تعلق جنگجوؤں کے اعلیٰ خاندان سے تھا۔ یہ جنگجوؤں کے لئے مخصوص طریق بشید و پر زندگی گزارتے تھے یعنی مالک سے وفاداری نظم وضبط ، باوقار رہنا اور ہر حال میں تابع داری۔

 جب مالک مرجاتا تو وفاداری ظاہر کرنے کے لئے سامورائی اپنی جان لینے کا انتہائی قدم اٹھاتے تھے ۔ اس رسم پر پابندی لگی تو اس وقت ایسے سامورائی بھی تھے جو خود کو مارنے سے دریغ نہ کرتے ۔ جوڈو کرائے، مراقبہ اور کینڈو جیسی مشقیں ان کی تربیت کا اہم حصہ اس تھیں۔ یہ مشقیں آج بھی جاپان میں سکھائی جاتی ہیں۔

 سامورائی لفظ عموماً مردوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن چند خواتین بھی سامورائی رہ چکی ہیں۔ ان میں Tomoe Gozen بہت مشہور ہوئیں ۔ بہادری، جے گھڑ سواری اور تلوار بازی میں ماہر اس خاتون کا اپنے مقا وقت کی بہترین جنگجوؤں میں شمار ہوتا تھا۔

1868ء میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ کے ساتھ سامورائی طرز زندگی کا بھی اختتام ہوا۔ بیش تر سامورائی بیوروکریسی ، تدریس اور فنون لطیفہ کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے ۔ آج بھی ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی نسل کی عزت کی جاتی ہے۔

قصہ ایک بے روزگار سامورائی کا ہے۔ ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ تم اپنے ہنر میں یکتا ہو، مایوس مت ہو، ایک بار پھر جاگیرداروں کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو، انہیں سامورائی اور تمہیں آقا کی ضرورت ہے۔

اس نے یہ بھی کر کے دیکھ لیا لیکن ناکامی ہوئی۔ ایک دوست ملاقات کے لئے گھر آیا۔ حالات دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ مدد کی ضرورت ہے ۔ اس نے کہا، جانتے ہو کہ تمہارا فلاں دوست ایک علاقہ میں حاکم مقرر ہوا ہے اور جلد یہاں سے رخصت ہو کر نیا عہدہ سنبھال لے گا۔

واہ ! کیا سچ کہہ رہے ہو ؟ سامورائی بہت خوش ہوا کیوں کہ جس دوست کا تذکرہ کیا گیا تھا وہ اچھے رفقا میں سے تھا مگر مصروفیت کی وجہ سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ بیوی بولی کہ دوست کا حاکم مقرر ہونا ہمارے لئے امید کی کرن ہے۔ وہ یقینا تمہاری مدد کرے گا۔ سامورائی کی آس بندھی اور دوست کے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ وہاں پہنچا تو وہ سفر کے لئے ضروری سامان رکھتے ہوئے ملازموں کو ہدایات دے رہا تھا۔ اسے دیکھ کر پرتپاک استقبال کیا اور گلے لگاتے ہوئے بولا ، بہت خوشی ہوئی کہ تم آئے اور اچھے وقت پر آئے ہو، پتہ نہیں پھر ملاقات کب ہو۔ شان دار نوکری ملی ہے۔ سامورائی بولا ، خبر مل چکی ہے اس لئے مبارک باد دینے آیا ہوں۔

دوست نے پوچھا، تمہاری ملازمت کہاں ہے؟ بے روزگار ہوں۔ ہر ممکن کوشش کر لی لیکن جہاں جاتا ہوں بات نہیں بنتی۔ ہنر ہے اور تجربہ بھی لگتا ہے کہ یہ قسمت ساتھ نہیں ۔ اب ہمت جواب دینے لگی ہے۔ دوست فکر مندی سے بولا، میرا مشورہ مانو اور ساتھ چلو ۔ اس شہر میں دال گلنی مشکل ہے۔

سامورائی کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ پُر جوش آواز من میں بولا ، امید تھی کہ تم کوئی راستہ ضرور دکھاؤ گے۔ دوست بولا ، تمہاری لئے نوکری کی کوشش کروں گا۔ بہت شکریہ میرے دوست کوئی اندازہ نہیں کر سکتا اور میں کس کرب سے گزر رہا ہوں ۔ بیوی نے بہت ساتھ درہہوا دیا، افلاس کے باوجود حرف شکایت زبان پر نہیں لائی۔نیک اور صابر عورت ہے، کوئی مطالبہ نہیں کرتی بلکہ کے ڈھارس بندھاتی ہے ۔ اس نے تمہارے پاس بھیجا ۔ اسے یہاں اکیلا کیسے چھوڑ دوں؟

دوست مسکرا یا اور بولا ، ایسی بیوی قسمت والے کو ملتی ہے۔ بس اس کی خوشی کے لئے یہ علاقہ چھوڑ د اور ساتھ ن چلو ! حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو اسے بھی بلا لینا۔ سامورائی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہامی بھر لی۔

گھر پہنچ کر بیوی کو خوش خبری سنائی ۔ فرط مسرت سے چہرہ سرخ ہو گیا لیکن جب معلوم ہوا کہ دوسرے شہر جانا ہے تو سرخی کی جگہ زردی نے لے لی اور دل پر بھاری بوجھ آ گیا ۔ سامورائی بھی افسردہ تھا ۔ ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے ۔ سمجھایا کہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ، اس طرح زندگی نہیں گزر سکتی ، میں چاہتا ہوں تم بہترین زندگی گزار و کسی شے کی کمی نہ ہو ۔ حالات بہترہوتے ہی واپس آجاؤں گا یا تمہیں بلالوں گا۔ بیوی حسین ہونے کے ساتھ سمجھ دار اور صابرہ تھی ۔ کہا، حالات پر پہلے اختیار تھا نہ اب ہے ۔ میں تمہاری منتظر رہوں گی ۔ یہ کہہ کر مزید ضبط نہ کرسکی اور چہرہ پر آنسو موتی بن گئے ۔

جانے سے پہلے بیوی کو کچھ خرچ دینا چاہتا تھا لیکن ادھار رقم دینے پر کوئی راضی نہ تھا اور سفر کے لئے بھی رقم درکار تھی ۔ دوست سے مانگنا اچھا نہیں لگا۔ نوکری میں مدد کے بعد مزید مدد مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

پیسوں کے بندوبست کی کوشش میں ایک امیر عورت سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پیشکش کی کہ اگر مجھ سے شادی کر لو تو تمہارے دن پھر جائیں گے۔ میں تمہارے ساتھ دوسرے شہر چلی جاؤں گی اور پہلی بیوئی یہیں رہے گی ۔ سامورائی کے دل نے تنبیہ کی کہ ایسا بالکل نہیں کرنا ۔ لیکن نہ جانے ذہن میں کیا آیا کہ اس نے شرط مان لی اور شادی پر راضی ہو گیا۔

رخصت ہونے سے پہلے وفادار بیوی کو خرچ کے لئے پیسے دیئے اور نئی بیوی کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

دوست کے توسط سے نئے شہر میں اچھی ملازمت ملی اور دن بدل گئے ۔ دوسری بیوی امیر کبیر تھی۔ لیکن اس نے کوشش کی کہ مزید احسان لئے بغیر اپنے بل بوتے پر پہلی بیوی کو پیسے بھیجے ۔ مفلسی کی زندگی سے آرام دہ زندگی کے سفر میں وہ غربت کے دن بھول گیا اور یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کوئی اس کا منتظر بھی ہے۔ خط لکھا نہ ابتدائی چند مہینوں کے بعد پیسے بھیجے ۔ دولت کے خمار میں پہلی بیوی کا ایثار بھول گیا کہ کس طرح اس نے اس کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ اس وقت جب اس کے پاس ۔ کچھ نہیں تھا۔ دوسری بیوی کا گرویدہ کیا ہوا کہ پہلی بیوی 3 کی موجودگی وقت گزرنے کے ساتھ غیر محسوس ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ اسے فراموش کر دیا۔

سالوں گزر گئے ۔ ایک روز تنہا بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ پہلی بیوی کی تصویر آنکھوں کے سامنے آئی جیسے وہ جیتی جاگتی سامنے کھڑی ہو۔ یک دم شرمندگی نے آگھیرا اور بے وفائی کا احساس ہوا ۔ میں نے اسے لاوارث چھوڑ دیا۔ نہ جانے کس حال میں ہوگی۔ ایک پیسہ نہیں بھیجا۔ میں یہاں عیاشی کر رہا ہوں اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کتنا مان تھا اسے مجھ پر ندامت بڑھی اور دل بھاری ہو گیا ۔ گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ضروری سامان لیا اور دوسری بیوی کو بتائے بغیر چند روز میں آبائی گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

وہ پورا راستہ اپنے آپ سے لڑ رہا تھا کہ یہ میں نےکیا کر دیا۔ اسے کیا تاویل دوں گا ۔ بہانہ تراشتا اور ردکر دیتا۔ آخر فیصلہ کیا کہ اس کے قدموں میں بیٹھ کراعتراف جرم کروں گا اور معافی مانگوں گا ۔ وہ معاف کر دے گی ۔ اب اس کے ساتھ رہوں گا۔ دوبارہ چھوڑکر نہیں جاؤں گا۔

گھر پہنچا تو گہری پر اسرار خاموشی تھی جیسے گھر نہیں ویرانہ ہو۔ وہ مکان جہاں مفلسی کے دن گزارے تھے ختہ حال ہو گیا تھا ۔ مرکزی دروازہ زنگ آلود ہو چکا تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی اور ہوا کے تھیٹروں سے دروازہ بج رہا تھا ۔ ارد گرد جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ لگتا تھا کہ یہاں برسوں بعد کوئی آیا ہے۔

سامورائی نے ہمت مجتمع کی اور اندر داخل ہوا۔ وہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading