گیارہ سوترپین سال پہلے کا مسلم سائنسدان۔۔
جالینوس ثانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ گیارہ سوترپین سال پہلے کا مسلم سائنسدان۔۔ جالینوس ثانی)جالینوس کے خیال میں مادے کے ایٹموں میں خلائی ذرات کی آمیزش سے پانچ عناصر وجود میں آئے میٹی ، پانی، ہوا ، آگ اور آسمانی عناصر کثیف عناصر یعنی مٹی اور پانی زمین کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں مادے کا ایٹمی تناسب زیادہ ہے۔ ہوا اور آگ اوپر کی طرف اٹھتے ہیں کیونکہ ان میں خلائی ذرات کی زیادتی ہے۔ آسمانی عناصر میں مادے اور خلائی ذرات کا توازن ہوتا ہے۔ لہذا وہ اوپر سے نیچے نہیں آتے نہ ہی نیچے سے اوپر جاتے ہیں ایک دائرہ میں گھومتے ہیں ۔ ایک نوجوان آس اور نا امیدی کے جذبات لئے آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہسپتال میں بیٹھا تھا۔ یقین اور بے یقینی کے گرداب میں اس کا ذہن مشکوک اور پر امید تھا۔ خیالات کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب اسے معالج کے کمرے میں بلایا گیا۔ معائنہ کرنے کے بعد معالج نے کہا کہ تمہاری آنکھیں تو ٹھیک ہو جائیں گی مگر اس کا معاوضہ 500 اشرفیاں ( پانچ سو) ہونگی۔ نوجوان بولا میں یہ خرچ پورا نہیں کر سکتا۔ معالج نے کہا کہ تمہاری مرضی ہے۔ نوجوان نے کچھ دیر سوچا پھر ہامی بھر لی آنکھوں کی تکلیف نے اس کو بے چین کر رکھا تھا لہذا وہ مطلوبہ اشرفیاں دینے کو تیار ہو گیا۔ خوش قسمتی سے علاج کامیاب ہوا اور بینائی واپس آگئی۔ علاج کے خاتمہ پر معالج نے کہا مجھے پتا ہے کہ تم کیمیا گر ہو اور سونا بنانے کا شوق تمہیں جنون کی حد تک ہے۔ بھٹی کے دھوئیں نے آنکھوں کی بینائی ختم کر دی۔ علاج کے لئے کثیر رقم خرچ کرنا پڑی۔ میرا مشورہ ہے کہ اس قسم کے بے مقصد شوق سے باز آجاؤ ۔ کوئی ہنر حاصل کرو۔ ان بے فائدہ کاموں کی خاطر اپنی جان ہلاکت میں مت ڈالو ۔ یہ بات نوجوان کے دل میں گھر کر گئی۔ اس نے جب اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالی تو وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہ حاصل ہوا۔ بنا آنکھوں سے محروم ہونا اس کے لئے عبرت کا سبب اور اس نے علم سیکھنے کا ارادہ کیا اور وہ بغداد چلا گیا۔ اس نوجوان کا نام ابو بکر محمد بن زکریا الرازی ہے۔ جو 860 ء ( آٹھ سو ساٹھ عیسوی) میں ایران کے شہر رے میں پیدا ہوا اسی نسبت سے رازی کہلایا۔ بغداد ان دنوں علوم فنون کا مرکز تھا۔ پوری دنیا سےطالب علم یہاں آتے تھے۔ وہاں اس کی ملاقات مشہور و معروف طبیب علی بن سہیل سے ہوئی جس نے حرف کتیجی کی مدد سے طبی انسائیکلو پیڈیا مرتب کی علی بن سہیل بغداد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کا نگران اعلیٰ تھا۔ رازی بھی اس کا شاگرد بن گیا۔
کچھ عرصہ بعد وہ علی بن سہیل کے معاون طبیب کی حیثیت سے کام کرنے لگا اور اس فن میں وہ رتبہ حاصل کیا جو یونانی طبیبوں میں جالینوس“ کو حاصل تھا چنانچہ رازی کو عرب کے جالینوس کا لقب دیا گیا۔ روایت کے مطابق جالینوس نے فن طب کو زندہ کیا۔ از سرنو اس کی تدوین کی حکیم رازی نے اور رازی کے بعد اس کے پیش کردہ علوم کی حکیم ابن سینا نے تکمیل کی۔ بغداد سے واپس آیا تو اس کا تقرر رئے کے بڑے ہسپتال میں کر دیا گیا ۔ اس نے احسن طریقے سے ہسپتال کا انتظام سنبھالا۔ رازی وہ پہلا طبیب تھا جس نے ابتدائی طبی امداد -( First Aid) کا طریقہ ایجاد کیا۔ کئی اہم طبی 1 مقالات لکھے۔ طب میں رازی کا بڑا کارنامہ چیچک پر ہے لکھا ہوا اس کا تحقیقی مقالہ ہے جس میں چیچک کے نہ اسباب احتیاط اور علاج سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے پا لاطینی، یورپی اور یونانی تراجم شائع ہوئے دنیائے طلب او میں اس موضوع پر یہ سب سے بڑی اور اہم کتاب ہے میں جو عرصے دراز تک یورپ کے میڈیکل نصاب میں شامل ہوئی طب روحانی پر ایک کتاب تصنیف کی طبی علاج کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کے لئے روحانی علم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ کتاب طب سے زیادہ اخلاقیات اور فلسفہ سے متعلق ہے ۔ رازی کی اہم ترین طبی کتاب ”المنصوری “ “ اور ”الحاوی ہیں ۔ کتاب المنصوری رے کے حاکم منصور بن اسحاق کی فرمائش پر لکھی گئی ۔ اس کتاب میں عربی ، ہندوستانی ، شامی اور یونانی طبی ادویات کا جائزہ لیا گیا ہے اس کے علاوہ اطباء کے نظریات اور مشاہدات پر تبصرہ شامل ہے۔ رازی نے ماضی کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا اور دواؤں اور کیمیائی مادوں کی مقدار کے درست اوزان حاصل کرنے کے لئے” میزان طبیعی ایجاد کیا رازی نے الکحل ایجاد کی۔ وہ ایک ماہر طبیعیات، ہیئت دان اور فلسفی بھی تھا، اُس نے ایٹم کے وجود کو تسلیم کیا اس کے خیال میں ہندی اجسام لامتناہی طور پر تقسیم کئے جاسکتے ہیں لیکن مادہ ایسے ایٹموں پر مشتمل ہے جو وسعت کے باوجود نا قابل تقسیم ہیں۔ اس کے خیال میں مادے کے ایٹموں میں خلائی ذرات کی آمیزش سے پانچ عناصر وجود میں آئے مٹی، پانی، ہوا ، آگ اور آسمانی عناصر ، کثیف عناصر یعنی مٹی اور پانی زمین کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں مادے کا ایٹمی تناسب زیادہ ہے۔ ہوا اور آگ اوپر کی طرف اٹھتے ہیں کیونکہ ان میں خلا کی ذرات کی زیادتی ہے۔ آسمانی عناصر میں مادے اور خلائی ذرات کا توازن ہوتا ہے۔ لہذا وہ اوپر سے نیچے نہیں آتے نہ ہی نیچے سے اوپر جاتے ہیں ایک دائرہ میں گھومتے ہیں۔ رازی حقیقت شناس تھا۔ اس کے خیال میں علم کی تکمیل نا ممکن ہے کیوں کہ علم کی کوئی انتہاء نہیں وہ یقین رکھتا ہے کی عقل کی مدد سے عملی اور نظریاتی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔ ہر شخص کو اللہ نے اس کے حصے کی عقل دی ہے۔ رازی کی دانست میں مذہبی تعصبات نفرت اور جنگ کا باعث بنتے ہیں۔ کئی صدیوں تک بطور فلسفی اس کے افکار کو نظر انداز کیا گیا اور ان پر تنقید کی گئی۔ مورخین کے مطابق مسلمان علماء فضلاء اور اطباء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اپنی کاوش طب تک محدود رکھتا تو بہتر تھا لیکن بیسویں صدی عیسوی میں ایک بار پھر اسکی فلسفیانہ تحریروں میں دلچسپی لی جانے لگی۔ 930ء (نوسو تمیں عیسوی ) میں یہ بے مثال شخص دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی موت کے بارے میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ رازی نے وزیر کی دعوت کی اور بے حد مزیدار کھانا کھلایا۔ وزیر نے بعد میں خفیہ طریقہ سے اس کی کنیز کو اپنے پاس بلوالیا اور کھانا پکوایا مگر وہ لذت نہ آئی جو رازی کے گھر کے کھانے میں تھی ۔ اس نے کنیز سے پوچھا تو کنیز نے بتا یا کہ رازی کے گھر سونے کی دیگچیوں میں کھانا پکتا ہے۔ وزیر نے یہ جان لیا کہ یہ کیمیا گر ہے اس نے رازی سے تحقیق کی مگر رازی نے تسلیم نہ کیا۔ لہذا وزیر نے اُس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا ۔
رازی کے حکیمانہ اقوال: حکماء کی کتب بہ کثرت پڑھنا، ان کے راز جاننے کی کوشش کرنا ہر حکیم کے لئے مفید ہے۔ جو شخص علم طبیعیات فلسفہ اور منطق کا مام ماہر ہے اور عامل نہیں بلکہ دنیاوی لذت میں گم ہو اس کو کبھی عالم نہ سمجھو اور طبیب خصوصاً ان سے واقفیت کے بغیر طبیب نہیں ہوتا۔ طبیب کا مزاج معتدل ہونا چاہئے نہ زر پرست ہو، نہ دنیا سے غافل ہو بلکہ دین و دنیا ساتھ ساتھ رکھے۔ اگر طبیب دواؤں سے کام لینے کے بجائے محض غذا کے ذریعہ علاج کرے تو نہایت اعلیٰ درجہ کا طبیب اور سعید ہے۔ مریض کے لئے مناسب ہے کہ ایک ہی طبیب سے علاج کروائے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013