Daily Roshni News

ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟۔۔۔(قسط نمبر1)

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟)ہر دل عزیز بننے اور دلوں کو مسخر کرنے کی خواہش تقریباً ہر شخص کے اندر کروٹ لیتی ہے۔ اس مقصد کے لئے لوگ مختلف اقدامات بھی کرتے ہیں۔یہاں ہم حضور یہاں ہم حضور قلندر بابا اولیاء اللہ علیہ کے اقوال کی روشنی میں ہر دلعزیز ہونے کے آسان طریقے بتاتے ہیں۔

دنیا میں ایسا کون سا شخص ہے جو یہ نہ چاہے کہ جس محفل میں پہنچے جانِ محفل بن جائے، جس کسی سے ملے اتنا بھر پور تاثر سامع پر چھوڑے کہ وہ اس کی شخصیت کا اسیر ہو جائے، کسی ادارے میں ملازم ہو تو افسران بالا اور ذیلی اسامیوں پر مامور لوگ اس کے کام اور کردار کے گن گائیں، اگر اپنا کاروبار یا دکان ہے تو کسٹمر ایک مرتبہ آجائے تو بندھ کر رہ جائے۔ رشتہ دار، دوست، احباب، اپنے پرائے سب اس کی عزت کریں اور سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ ذہن پر زور ڈال کر بتائیے کہ کون شخص ہے۔

جو لوگوں میں ہر دل عزیز ہونا نہیں چاہتا ؟ شاید ایک شخص بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا کیونکہ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی خواہش تقریباً ہر شخص کے سینے میں موجزن ہوتی ہے۔

آئیے اللہ کے دوست ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کا ہر دل عزیز ہونے کے طریقے بیان کرتے ہیں۔ بحث برائے بحث سے گریز کیجئے: یوں تو بحث و مباحثہ زندگی کی مثبت قدروں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی سے جہاں شخصی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے وہیں معلومات کی ترویج اور اپنی بات کو معاشرے میں دلیل کے ساتھ پیش کرنے کا رویہ بھی تشکیل پاتا ہے۔ لیکن معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو احساس برتری کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے اندر دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اگر ایسے لوگوں کی کسی بات کی تردید کی جائے تو مستقل اپنی بات پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی بات کی تلقین کرنا اور اُن کو دلائل سے اپنی فکر کی جانب متوجہ ہونے پر آمادہ کرنا اکثر اوقات ذہنی توانائی کے زیاں کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ چونکہ اپنی اس عادت میں خاصے پختہ ہوتے ہیں اس لئے دوسرے لوگ ان کے ساتھ بحث برائے بحث میں لگ کر اکثر اپناراستہ بھی کھوٹا کر بیٹھتے ہیں۔

قلندر بابا اولیاء ایسے مواقع کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ” بحث برائے بحث سے گریز کیا جائے اور ایسے کٹ حجتی قسم کے افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ بحث برائے بحث کرنےوالے بندے کا مقصد عموماً یہ ہوتا ہے کہ دوسرے فرد کو نیچا دکھایا جائے وہ آپ سے بحث اس لئے نہیں کرتا کہ وہ کچھ سمجھنا چاہتا ہے بلکہ اُس کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو بر تر ثابت کر دے“۔

 شواہد بتاتے ہیں کہ ایسی بحث کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔ ایسے مواقع پر خاموش ہونا واقعی بہت بڑے دل کی بات ہے۔ کوئی ہمارے سامنے حقیقت کو جھٹلا رہا ہو لیکن اس وسیع و القلبی ں کا کا ہے ہمیں بہت اچھا پھل ملتا ہے۔ آپ کی بزرگی سامع پر قائم ہو جاتی ہے اگر نہ بھی قائم ہو تو کم از کم دلوں میں فرق تو نہیں آتا۔ لوگوں کو اس طرح سکھائیے کہ آپ ان کو کچھ سکھا نہیں رہے بلکہ کوئی بھولی بسری بات یاد دلا رہے ہیں۔ اختلافی جملے کو درمیان میں ہر گز نہ لائیں ورنہ سامع خطرہ محسوس کرنے لگے گا اور محتاط ہو جائے گا۔ آپ سے شاکی ہو جائے گا۔

اپنی غلطی تسلیم کیجئے:

 حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر فرماتے ہیں ” میں ایک اخبار میں کالم لکھا کرتا تھا، وہاں ایک جنرل منیجر صاحب تھے مجھے اس زمانے میں دوسو روپے تنخواہ ملا کرتی تھی۔ میں نے جنرل منیجر سے کہا میری تنخواہ بڑھاؤ یہ بہت کم ہے۔ قصہ مختصر میں اپنے مطالبے کو منوانے کے لئے ایک مرتبہ ڈائریکٹرز کی میٹنگ کے دوران میٹنگ روم میں بغیر اجازت داخل ہو گیا اور کہا ” آپ لوگ میرا فیصلہ کر دیں۔ اگر کالم لکھوانا ہے تو میری تنخواہ بڑھائیں۔ دو سو روپے میں گزارا نہیں کر سکتا۔

یہ بات مجھ سے غصے میں ہو گئی جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ میری بات پر جنرل منیجر نے سخت سست کہا اور میں نے بھی انہیں سخت سست کہا انہوں نے کہا میں آپ کا کالم ختم کر دوں گا۔ میں نے کہا میں ، آپ کی کرسی چھین لوں گا۔ میرے ذہن میں تھا کہ قلندر بابا اولیاء سے جاکر عرض کروں گا اور وہ ایسا کر دیں گے۔

حضرت خواجہ شمس شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ میں اخبار کے دفتر سے نکلا اور سیدھا قلندر بابا اولیاء کے پاس جا پہنچا۔ آپ نے مجھے اس حال میں دیکھا تو فرمایا کیا بات ہے ؟ بیٹھیں۔ مجھے پانی پلوایا ابھی میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ فرمایا…. خواجہ صاحب ….! بات یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط ہے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔میں نے صفائی پیش کی تو آپ نے فرمایا …. دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ یہاں زمین پر ہو رہا ہے یا کائنات میں ہو رہا ہے کیا کسی بندے کےحکم سے ہو رہا ہے ؟“

میں نے عرض کی اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے “

قلندر بابا نے فرمایا

اللہ نے آپ کو جنرل منیجر کیوں نہیں بنایا؟ آپ کو کالم نویس کیوں بنایا۔ اگر آپ میں صلاحیت ہوتی تو آپ جنرل منیجر ہوتے “۔

قلندر بابا اولیاء بہت ناراض ہوئے۔ یہ دیکھ کرمیں نے کہا کہ یہاں تو بات ہی الٹی ہو گئی۔ واقعی غلطی میری ہی تھی۔ میں شرمندگی کے کے مارے دودن تک دفتر ہی نہیں گیا۔ دو دن بعد گیا تو جنرل منیجر کے سامنے شرمندگی کی وجہ سے نظر نہیں اٹھا سکا۔ وہ مجھے دیکھ کر تیزی سے آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے اور کمرہ اندر سے بند کر لیا اور مجھ سے کہا ” میں نے محسوس کیا کہ اس روز غلطی میری بھی تھی میں ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں آپ کا کیس پیش کر دیتا۔ آگے ان کی مرضی تھی۔ بھئی میں آپ سےمعافی چاہتا ہوں“۔ میں نے عرض کیا ”جناب! میں اپنے مرشد کے پاس گیا تھا ان سے اُلٹی ڈانٹ پڑی ہے جناب میں بہت شرمندہ ہوں آپ مجھے معاف کر دیں۔ ہم دونوں گلے ملے اور بات صاف ہو گئی۔ غلطی کر کے اسے تسلیم کرنا اور پھرمعافی مانگنا بہت مشکل کام ہے۔ جس پر یہ ؟ بھاری ثابت ہوتا ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے دولڑائی سے آپ کو نہ ملنے کے برابر ملتا ہے لیکن اطاعت میں توقع سے زیادہ دستیاب ہوتا ہے “۔ قلندر بابا اولیاء گا یہ فرمان سلسلہ عظیمیہ کےقواعد وضوابط میں شامل ہے جاؤ تو دتم اگر کسی کی دل آزاری کا سبب بن . اس سے معافی مانگ لو، قطع نظر اس کے کہ وہ تم سے چھوٹا ہے یا بڑا۔ اس لئے کہ جھکنے میں عظمت پوشیدہ ہے۔ تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلا توقف معاف کر دو۔ اس لئے کہ انتقام بجائے خود ایک صعوبت ہے۔ انتقام کا جذبہ اعصاب مضمحل کر دیتا ہے “۔

ذہنی سکت کے مطابق بات :

ایک شخص بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے آیا۔ کلرک نے معمول کے مطابق اسے ایک فارم پُر کرنے کو دیا۔ بعض سوالات کے جوابات اس نے بڑی خوشی سے لکھ دیئے لیکن ایک سوال پر آکر رک گیا کہ یہ غیر متعلق ہے۔ سوال میں اپنے وارث کا نام درج کرنا تھا۔ وہ شخص بضد تھا کہ جب میں زندہ ہوں تو یہ میری مرضی پر موقوف ہے کہ جواب دوں یا نہ دوں۔ کلرک بہت سمجھ دار تھا ورنہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ جنوری 2022

Loading