”ہمارا مقصد اور ہم“
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آپ کسی بھی موضوع پہ لکھیں، بہت سارے لوگ آپ کی ہاں میں ہاں ملائیں گے، داد دیں گے، مگر بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو اس بات کا انکار کریں گے اور اپنی رائے دینا شروع کر دیں گے، رائے دینا بہت اچھی بات ہے مگر رائے ایسی ہو کہ جس کو علمی حوالے سے ثابت بھی کیا جا سکے نہ کہ ہوا میں محل تعمیر کریں۔
جب کو ڈاکٹر/ماہرِ نفیسات/ غذائی ماہر/ فزیوتھراپسٹ کچھ ”ایڈوایس“ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پہ عمل کرنا ہے آپ ٹھیک ہو جائیں گے، آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
کچھ عرصہ گزرتا ہے تو لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ”اجی، کچھ نہیں بدلا ، سب ویسے کا ویسا ہے بلکہ ”وارس“ ہوتا جا رہا ہے۔“
لوگ ڈاکٹر/ ماہرِ نفسیات بدل لیتے ہیں۔
یہاں پہ اب ایک بہت اہم نقطہ سمجھانا چاہوں گا کہ لوگوں کو جو جو ایڈوائس کیا جاتا ہے اُس پہ عمل نہیں کرتے۔۔۔
اور یہ بہت بڑا سچ ہے، میں نے بہت سے مریضوں کو شوگر، بلڈ پریشر، ڈپریشن، اینگزائٹی اور دوسری بیماریوں کی دوائیاں لکھ کر دیں اور بے شمار لوگوں کو واک،ورزش، خود کو مصروف رکھیں، کھانے کی عادات کو بدلیں، کتابیں پڑھیں، مویز، سیل فون کم سے کام استعمال کریں،گھر والوں کو وقت دیں وغیرہ۔۔۔
مگر لوگوں نے شکایت کی کہ ہم کو آرام نہیں آیا، میں نے ایک ریسرچ شروع کر دی (تین سال پہلے) کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو آرام نہیں آ رہا؟
میں مختلف سوالات اور باتوں کے ذریعے یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہو گیا کہ لوگوں کو آرام کیوں نہیں آتا۔
آپ یہ بات جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ”آرام نہیں آیا“ کے اسی سے نوے فیصد لوگوں میں اُن کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔
اب آپ کے ذہن میں یہ سوال اُٹھ رہا ہو گا کہ وہ کیسے؟
ایک مثال دیتا ہوں، ایک نوجوان مریض کو پیشاب کا مسئلہ تھا اور گردے کا، میں نے اُس کو زیادہ پانی پینا ”ایڈوائس“ کیا،نوجوان ایک ہفتے بعد آیا اور کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب دس فیصد فرق پڑا ہے، آپ اگر کہیں تو کیا میں فلان ڈاکٹر کے پاس چلا جاؤں؟
میں نے مسکرا کر کہا ” یہ بتائیں دن میں پانی کتنا پی رہے ہو؟ کہتا ہے آپ نے کہا تھا دس سے بارہ گلاس تو میں زیادہ ہی پی جاتا ہوں، میں ایک دو ادھر اُدھر کی بات کی اور پھر پوچھا کہ ”پیشاب کا رنگ کیسا ہے؟
کہنے لگا ”جل کر آتا ہے اور پیلے رنگ کا آتا ہے “ ۔
میں مسکرانے لگا اور کہا بھائی صاحب پانی کم پیئں گے تو ایسا ہی ہو گا نا، پانی جیتنا بتا رہے ہو اُتنا اگر پیتے تو رنگ سفید ہوتا نہ کہ پیلا نوجوان شرمندہ سا ہو گیا اور کہنے لگا جی پانی کم پیتا ہوں۔
آپ کے ڈاکٹر کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ نے کہاں تک اُس کے مشوروں پر عمل کیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے سیشن لیتا ہوں، مشورے دیتا ہوں مگر۔۔۔
مگر ”لوگ عمل نہیں کرتے“، پھر شکایت کرتے ہیں کہ ٹھیک نہیں، زندگی ویسی کی ویسی ہے۔
دیکھیں ، میں زندگی بدلنے کے مشورے ضرور دے سکتا ہوں، آپ کو سُن سکتا ہوں مگر زندگی آپ نے خود بدلنی ہے، زندگی کی گاڑی کا اسٹیئرنگ اپنے ہاتھ میں رکھیں اور مجھ سے مدد لیتے رہیں مگر اس کا کنٹرول مجھے مت سونپیں۔
کبھی مواقع ملے تو ”برائن ٹریسی“ کی کتاب ”ٹائم پاور“ پڑھئے گا، برائن ٹریسی نے کتاب کے حرفِ آغاز میں معروف مفکر ”ولفرڈ اے پٹرسن“ کا ایک قول لکھا ہے جو کچھ یوں ہے کہ :
”مقصد کو پانے کی تڑپ آپ کی صلاحیتوں کو اس اصول کے لئے کارفرما ہونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔“
اب اس بات کو اپنے ذہن میں رکھیں اور سوچیں کے لوگ ٹھیک کیوں نہیں ہوتے۔۔۔
ایک خاتون میرے پاس تشریف لائیں اُن کا تیسرا سیشن تھا اُن کو اس کی ضرورت نہیں تھی (میرے مطابق، میں سیشنز نہیں مریضوں پہ دھیان دیتا ہوں) مگر اُنہوں نے وقت لے لیا، کہنے لگیں ڈاکٹر صاحب میں کیوں ٹھیک نہیں ہو رہی؟
میں نرم لہجے میں کہا ” اس میں آپ کا ہاتھ ستر فیصد ہے“۔
حیران ہو کر کہنے لگیں وہ کیسے؟
میں نے ڈائری کھولی اور کہا کہ آپ کو ”یہ یہ ایڈوائس کیا گیا تھا ، آپ نے مل نہیں کیا۔“
خاتون نے نظریں جھکا لیں۔
میں نے کہا چلیں ایک کام کرتے ہیں ، ایک ہفتہ، ہر روز میں آپ سے فون پر پوچھا کروں گا کہ یہ کام کیا کہ نہیں اور موٹیمیٹ بھی کیا کروں گا کہ آپ کریں ، یک کرنا ہی ہو گا۔
یقین کیجیئے ایک ہفتے بعد ”رزلٹ“ آنا شروع ہو گیا اور وہ خاتون کہنے لگیں ”میری ناکامی میں ، میرا ہاتھ ستر نہیں سو فیصد تھا۔“
”الکیمسٹ“ ناول میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ جب کسی چیز یا کام کو دل سے چاہا یا پورا کرنا ہو تو وہ ضرور ہو ملتی ہے ضرور کام پورا ہوتا ہے۔“
ہم اپنی خامیوں کو کبھی تسلیم نہیں کرتے، جس دن ہم نے کھلے دل سے تسلیم کرنا شروع کر دیا اور اپنے مقصد کو پانے کی سچی شمع جلا لی تو وہ دن ہمارے مقصد کی طرف پہلا قدم ہو گا۔
#ڈاکٹر_عرفان_اقبال