Daily Roshni News

ہم روحانیت کے سفر کا آغاز کہاں سے اور کیسے کریں؟۔۔۔تحریر۔۔۔ علی اکبر قادری  

ہم روحانیت کے سفر کا آغاز کہاں سے اور کیسے کریں؟

تحریر۔۔۔ علی اکبر قادری  

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔علی اکبر قادری )روحانیت کی دُنیا میں داخل ہونے سے پہلے سب سے ضروری بات  یہ ہے کہ ہمارے اندر روحانیت کی دنیا کی موجودگی کا یقین ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیر یقین کہ ہم کسی چیز سے استفادہ نہیں کر سکتے”

 دیکھیں پانی پینے سے پیاس اس لیے بجھ جاتی ہے کہ ہمارے یقین کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ پانی پیاس بجھا دیتا ہے”

 ہم زندہ اس لیے ہیں کہ ہمیں اس بات کا  یقین حاصل ہے کہ ہم زندہ ہیں جس لمحے ہمارا زندگی کے متعلق یقین ٹوٹ جاتا ہے تو آدمی مر جاتا ہے”

 اس لیے روخانیت کی دنیا ہمارے اندر موجود ہے اس کا کامل یقین ہونا روحانیت کے مسافر کے لیے پہلی شرط ہے “

اس کے بعد نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر دستبردار ہو جانا ہے “جو بندے اور اللہ کے درمیان رکاوٹ ہے “

دراصل نفس نے انسانی وجود اس قدر  زیب و زینت کے ساتھ سجا رکھا ہے کہ انسان کا اس کو چھوڑنے کو جی کبھی نہیں چاہتا “اور اسی زیب و زینت نے انسان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے “

یہ زیب و زینت کیا ہے؟ قران مجید اس کی وضاحت میں فرماتا ہے سورۃ عمران3.14 میں” (لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت خوب آراستہ کر دی گئی ہے جن میں عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی شامل ہیں یہ سب  دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانہ ہے)

 عورت” اولاد” مال و دولت” زمین ”اور سرمایہ ”دنیا کی شکل میں وہ  رغبتیں ہیں جو زنجیریں بن کر قدموں کو جکڑے رکھتی ہیں”

 یہ زنجیریں وہ ہیں جو نفسانیت کی قید میں انسان کو جکڑے ہوئے ہیں اور جب کچھ لوگ اس سے نکلنے کا سوچتے ہیں تو کبھی عورت کی محبت کی زنجیر انہیں پاؤں سے کھینچ لیتی ہے” تو کبھی اولاد کی محبت” کبھی زندگی بھر کی کمائی مال و دولت سونا چاندی کی محبت انہیں روک لیتی ہے “اور کبھی قوت و طاقت “حکومت و سلطنت” اور اقتدار کے مزے زنجیر بن کر روک لیتے ہیں”

 جبکہ دوسری طرف دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری شہوتیں” رغبتیں” زینتیں “اور محبتیں” ہی ہماری روحانیت پر حجاب بن گئی ہیں اور جب کسی چیز پر حجاب آ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اس کے پیچھے ہے وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا اور عمر بھر ہم حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں” لہذا راہ حق کے مسافر کے لیے ضروری ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے توبہ تائب ہو جائے “

تاکہ اس کو صحیح اور حق کے راستے کا مزید تعین ہو سکے” اس کو سب کچھ عیان نظر انے لگے اور جب انسان نفس کی خواہشات سے پاک ہو جاتا ہے تو اس پر روحانیت کے ثمرات کھلنے شروع ہو جاتے ہیں ” اور تجلیات اس کے دل اور باطن میں اتر جاتی ہیں” جس سے مستی اور بے خودی آتی ہے علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ”

 اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغ زندگی”

 تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن”

 پھر انسان مجلس میں بیٹھا کھویا کھویا نظر آتا ہے جلوت میں بیٹھا ہوا خلوت میں چلا جاتا ہے دوستوں کے ہجوم میں بیٹھا وہ ذات حق کی طرف رجوع کرنے لگ جاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیں دیکھ رہا ہے مگر وہ اس ذات میں گم ہوتا ہے لہذا جو نظارے مرنے کے بعد نصیب  ہونے تھے وہ اسی زندگی میں قلب اور باطن کی کیفیات بن کر اس شخص پر طاری ہونے لگتے ہیں”

  آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو روحانیت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے “

علی اکبر قادری !

Loading