Daily Roshni News

ہوس، حسرت اور دو گز زمین

ہوس، حسرت اور دو گز زمین

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک بادشاہ نے کسی خوش نصیب کے سامنے  دنیا کی وسیع ترین جاگیر کا دروازہ کھول دیا۔ پیشکش سادہ مگر ہوش اڑا دینے والی تھی:”سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک، تم اپنے قدموں سے جتنی زمین کا حصار مکمل کر لوگے، وہ سب تمہاری ملکیت ہوگی۔”بس ایک ہی شرط تھی.. اگر سورج ڈوبنے سے پہلے تم اسی مقام پر واپس نہ پہنچ سکے جہاں سے چلے تھے، تو تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وہ شخص دیوانہ وار چل پڑا۔ اس کی آنکھوں میں زمین کی ملکیت کا نشہ اور دل میں امید کے چراغ روشن تھے۔ وہ تیز قدم اٹھاتا رہا، یہاں تک کہ دوپہر کا سورج سر پر آ گیا۔ تھکاوٹ نے دستک دی، عقل نے سمجھایا کہ آدھا دن گزر چکا ہے، اب واپسی کی راہ لینی چاہیے تاکہ دائرہ مکمل ہو سکے۔ مگر تبھی… “لالچ” نے اس کا دامن کھینچ لیا۔ اس نے سامنے دیکھا تو سرسبز میدان اور خوبصورت پہاڑیاں اس کی منتظر تھیں۔ دل نے سرگوشی کی:”بس یہ پہاڑی بھی گھیر لوں… تھوڑی سی اور زمین… بس چند قدم اور!”

وہ آگے بڑھتا گیا۔ ہر خوبصورت ٹکڑا اسے واپسی سے روکتا رہا۔

پھر اچانک اس کی نظر آسمان پر پڑی۔ سورج اب ڈھل نہیں رہا تھا، بلکہ تیزی سے پہاڑوں کے دامن میں گر رہا تھا۔ خوف نے اس کے دل کو جکڑ لیا۔

اب وہ چل نہیں رہا تھا، بلکہ موت اور زندگی کی بازی لگا کر بھاگ رہا تھا۔

اس کے پھیپھڑے پھٹنے کو تھے، سانسیں آری کی طرح چل رہی تھیں، حلق کانٹوں کی طرح خشک ہو چکا تھا، اور پاؤں منوں وزنی محسوس ہو رہے تھے۔

ہر گزرتا لمحہ اس کے کان میں چیخ رہا تھا: “واپس لوٹ آؤ! ورنہ سب ختم ہو جائے گا!”

سورج افق کے کنارے آ لگا۔ وہ شخص گرتا پڑتا، ہانپتا کانپتا، اپنی آخری توانائیاں نچوڑ کر نقطہ آغاز کی طرف لپکا۔

ادھر سورج کی آخری کرن ڈوبی، اور اُدھر وہ شخص منہ کے بل لکیر پر گر گیا۔

دائرہ تو مکمل ہوگیا… مگر اس کی زندگی کا دائرہ بھی وہیں سمٹ گیا۔

اس کے ہاتھ لکیر کو چھو رہے تھے، مگر روح پرواز کر چکی تھی۔ اس نے زمین تو جیت لی تھی، مگر اسے بھوگنے کے لیے وہ زندہ نہ رہا۔

لوگوں نے اسے وہیں دفن کیا۔ زمین کے اس وسیع و عریض ٹکڑے پر، جس کے لیے اس نے جان دے دی تھی، اسے صرف دو گز جگہ ملی۔

اس کی قبر پر لگا کتبہ آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بن گیا:

“اس انسان نے میلوں لمبی زمین کے لیے اپنی جان گنوا دی، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے صرف اتنی ہی زمین کی ضرورت تھی، جتنی اب اس کی قبر نے گھیر رکھی ہے۔”

حاصلِ کلام:

اللہ رب العزت نے اسی غفلت کی نقشہ کشی سورۃ العصر میں ان الفاظ میں کی ہے:

(قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے۔)

ذرا سوچیے!

ہم بھی تو اسی شخص کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ خواہشات کے دائرے وسیع کرتے کرتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا سورج سر پر آ چکا ہے۔

ہم سوچتے ہیں، “بس یہ ایک اور خواہش پوری ہو جائے، پھر توبہ کر لیں گے، پھر سکون سے بیٹھیں گے۔”

مگر افسوس! اکثر دائرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی سورج ڈوب جاتا ہے۔

آئیے! اس سے پہلے کہ شام ہو جائے، اور سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جائے، اپنے رب کی طرف واپسی کا سفر شروع کریں۔ کیونکہ قبر کی مٹی کے سوا انسان کے پیٹ کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔

اللہ کریم ہمیں لمبی امیدوں کے دھوکے سے نکال کر موت کی سچی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Loading