Daily Roshni News

ہڈیاں مضبوط جسم توانا

ہڈیاں مضبوط جسم توانا

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ہڈیاں مضبوط جسم توانا) انسانی جسم میں 206 ہڈیاں ہوتی ہیں۔ جسم کی بنیاد ہڈیوں پر قائم ہے جیسے کسی عمارت کو کھڑاکرنے میں لوہے کے تانے بانے ڈالے جاتے ہیں پھر انہیں سیمنٹ اور بجری کی مدد سے مضبوط کر دیا جاتا ہے۔ ہڈیاں جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں اور بون کی کرسٹل اسے مضبوط کرتی ہے۔ اسے ہائیڈروکسی کہتے ہیں۔ ان Hydroxyapatite ایپاٹائٹ میں کیلشیم اور فاسفیٹ موجود ہوتا ہے۔

کسی نومولود بچے میں ہڈیوں کی نشو و نما، لمبائی اور چوڑائی دونوں طرح سے ہوتی ہے یعنی وہ بڑھتی اور پھیلتی ہیں۔ عام طور پر لڑکیوں میں چودہ اور لڑکوں میں اٹھارہ سال کی عمر میں بچنہ پختگی آجاتی ہے۔اس وقت کہا جاتا ہے کہ ان کا بون ماس تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔

دونوں اصناف میں ہڈیوں کی پختگی تیس سال کی عمر تک قائم رہتی ہے اس کے بعد ریموڈلنگ کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اس دور میں پرانی ہڈیوں کے حصے قدرتی طور پر ٹوٹتے اور نئی ہڈیوں کے حصے ان جگہوں کو پر کرتے ہیں۔ نئی ہڈیاں بننےوالے سیل کو Osteoblast اور پرانی ہڈیوں کو ختم کرنے والے سیل کو Osteoclast کہتے ہیں۔

ان دونوں کے درمیان Osteocytes ہوتے ہیں جو میچور سیل کہلاتے ہیں۔ جسم جب ری موڈلنگ کے عمل سے گزرتا ہے تو آسٹیو بلسٹ سیل کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے نئی ہڈیاں بننے کا عمل تیز ہو جاتا ہے اور آسٹیو کلاسٹ کی پیداوار کم رہتی ہے۔

جسم کا یہ پورا عمل منظم انداز میں ہوتا ہے مگر اس میں عام صحت کی درستگی کا خاصا عمل دخل ہے۔ اگر عام صحت ٹھیک نہ ہو مثلاً متوازن غذا نہ لی جاتی ہو ، ہارمونز ڈسٹرب ہوں تو اس صورت میں نئی ہڈیاں بننے کا عمل آہستہ اور ختم ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص میں تھائی رائیڈ کا مسئلہ یا کوئی خاتون بار بار حاملہ ہو رہی ہو تو یہ عمل تیس سے پینتیس سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی متاثر ہو سکتا ہے۔

اس دورانیے میں ہڈیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تھوڑا سا تیز ہو جاتا ہے۔ اکثر خواتین میں پینتالیس سے پچاس سال کی عمر تک تو سن یاس یعنی مینو پاز آجاتا ہے۔

مینو پاز ہڈیوں کے گھلاؤ کا دور:اس درد میں خواتین میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کا عمل رک جاتا ہے۔ اس عرصے میں آسٹیو کلاسٹ کی کار کردگی بڑھ جاتی ہے اور آسٹیو بلاسٹ زیادہ تیز رفتاری سے ہونے لگتا ہے۔

عام الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیس سے پینتیس سال تک ری موڈلنگ کا عمل متوازن چلتا ہے اس کے بعد ہڈیاں ختم ہونے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ جس کی سالانہ شرح 25 سے 5 فیصد ہوتی ہے۔ بعض افراد میں یہ شرح چھ فیصد بھی ہو سکتی ہے جس کی وجوہ میں غیر متوازن غذا، عمومی صحت کا اچھا نہ ہونا، جسمانی سرگرمیاں نہ ہونا اور ہارمونز کا نظام درست نہ ہونا ہو سکتا ہے۔ پچاس برس کی عمر کو پہنچ کر مینو پاز کا آغاز ہو جائے اور عمومی صحت بھی اچھی نہ ہو تو آسٹیو پوروسیس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گوری رنگت والے افراد آسٹیو پوروسیس میں جلد مبتلا ہوتے ہیں یعنی افریقیوں کی نسبت گورے امریکیوں میں یہ مرض بلند شرح میں پایا جاتا ہے۔ پاکستانی خواتین میں بھی یہ مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ میں متوازن غذا کی عدم فراہمی اور جسمانی سرگرمیوں کا فقدان شامل ہیں۔ اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے تو ڈائٹنگ کا تصور بدلیے۔

دبلا پتلا نظر آنے کے شوق میں دودھ اور پروٹین کا استعمال ختم نہ کیا جائے۔ متوازن غذا اور جسمانی ورزش پر خاص توجہ دی جائے تا کہ مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات معدوم ہو سکیں۔ اوائل عمری ہی میں دودھ دہی اور پنیر کا استعمال کیا جائے۔ متحرک اور فعال زندگی کے لیے ورزش ضروری ہے۔

BMD ٹیسٹ کب ہونا چاہیے….؟جب مینو پاز کا آغاز ہوئے دو سال ہو جائیں تو

ٹیسٹ (Body Mass Density) بی ایم ڈی لازمی کروائیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کیلشیم، وٹامن ڈی اور ورزش تینوں اراکین مل کر ہڈیوں کو مضبوط اور توانا کرتے ہیں۔ اگر بچپن میں ان تینوں اجزاء کے باہمی ربط کو یقینی بنا لیا جائے یعنی بچے ورزش بھی کریں، دودھ بھی پئیں اور وٹامن ڈی سے بھر پور غذائیں بھی استعمال کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑی عمر میں ان کے جوڑوں میں درد کی شکایت ہو یا ان کی ہڈیاں چوٹ برداشت نہ کر سکیں۔

اوسٹیو پوروسیس (ہڈیوں کی بھر بھراہٹ) کی بیماری بڑی خاموشی سے سرایت کرتی جاتی ہے اور ہڈیاں گھلتی چلی جاتی ہیں۔ اوسٹیو آرتھرائٹس بھی کیلشیم اور وٹامن ڈی کی وافر مقدار نہ ملنے کی وجہ سے جڑ پکڑتی ہے۔

کیلشیم کیا ہے ….؟ یہ ایک معدنی جزو ہے۔ اس کا ننانوے فیصد حصہ اعضاء ہڈیوں اور دانتوں کے لیے درکار اجزاء پر مشتمل ہے۔ متوازن غذا کی وجہ سے قدرتی ذرائع سے ہی کیلشیم کا بڑا حصہ دستیاب ہو جاتا ہے۔ دودھ اور دہی اس معدنی جزو کے حصول کے بنیادی ذرائع ہیں۔ تاہم ماہرین غذائیت فل کریم مصنوعات سے پر ہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسے افراد جو نمک اور حیوانی پروٹین کا استعمال زیادہ کرتے ہیں ان کے جسم میں کیلشیم کم ہو جاتا ہے۔

وٹامن ڈی کا بہترین قدرتی ذریعہ دھوپ ہے۔ عمر کے چالیسویں عشرے تک پہنچتے پہنچتے بیشتر خواتین اوسٹیو پوروسیس میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اگر صرف دس منٹ تک روزانه گردن کہنی، گھٹنے یا ٹخنے پر دھوپ لگے تو وٹامن ڈی کی مخصوص مقدار حاصل ہو جاتی ہے۔

ذیل میں WHO کی مختص کردہ یومیہ مقدار کا چارٹ شائع کیا جارہا ہے۔

 عمروں کے گروپ اور کیلشیم یومیہ خوراک کا پیمانہ:

 بالغ افراد مرد…. پچاس برس کی عمر چار سو سے پانچ سو ملی گرام یومیه، بالغ افراد خواتین….

پچاس برس کی عمر چار سو سے پانچ سو ملی گرام ومیه ، 3-1 برس کے بچے چار سو سے پانچ سو ملی گرام یومیہ ، لڑکے 18-11 برس پانچ سو سے سات سو ملی گرام یومیہ ، لڑکیاں 18-11 برس پانچ سو سے سات سو ملی گرام یومیہ ، ماں بننے والی خواتین 1200-1000 ملی گرام یومیہ ۔

اوسٹیو پوروسیس کے مریضوں کے لیےغذائی ہدایات۔عمر کے کسی حصے میں اس مرض اور اس کے خطرات کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے روز مرہ کے معمولات میں چند تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مناسب ورزش، ایسی غذا کا استعمال جس میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مناسب مقدار شامل ہو۔ ….. بالائی نکالے ہوئے دودھ اور کم چکنائی والے دودھ میں کیلشیم کی مقدار ایک برابر ہوتی ہے۔

نیچے دیے گئے چارٹ کی مدد سے غذا میں کیلشیم کی مقدار کو مناسب حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔

غذا اور کیلشیم کی مقدار

 سخت پنیر 30 گرام، ایک گلاس دودھ 150 ملی گرام، دہی 125 گرام، نرم پنیر کا حصہ 30 گرام، تازہ پنیر 75 گرام، ہری سبزیاں 150 گرام، آلو 100 گرام، گوشت 150 گرام مچھلی 120 گرام، بریڈ اسٹک 100 گرام۔

چند اہم نکات یاد رکھیے…. نمک، سرخ گوشت اور کافی کا زیادہ استعمال کیلشیم کی کمی کا باعث بنتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2021

Loading