یادگار غزل
باذوق خواتین و حضرات کے لئے
بس اک پکار پہ دروازہ کھول دیتے ہیں
ذرا سا صبر بھی ان آنسوؤں سے ہوتا نہیں
شکیل اعظمی
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
اطہر نفیس
برہمن کھولے ہی گا بت کدہ کا دروازہ
بند رہنے کا نہیں کار خدا ساز اپنا
حیدر علی آتش
دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے
بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے
شین کاف نظام
اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا
مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے
غلام مرتضی راہی
یعنی دروازہ بھی اک اسم ہے جس کو پڑھ کر
لوگ دیوار کے اندر سے گزارے جائیں
حارث بلال
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
مرزا غالب
خواب کا دروازہ کوئی مسدود کر دیتا ہے روز
پڑتے ہیں راتوں کو یاں ایسے ہی پتھر خواب میں
مصحفی غلام ہمدانی
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا
سید ضمیر جعفری
سامنے آ کر وہ کیا رہنے لگا
گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگا
انور شعور
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا
وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا
پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا
اس کے قریب جانے کا انجام یہ ہوا
میں اپنے آپ سے بھی بہت دور جا پڑا
انگڑائی لے رہی تھی گلستاں میں جب بہار
ہر پھول اپنے رنگ کی آتش میں جل گیا
کانٹے سے ٹوٹتے ہیں مرے انگ انگ میں
رگ رگ میں چاند جلتا ہوا زہر بھر گیا
آنکھوں نے اس کو دیکھا نہیں اس کے باوجود
دل اس کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہا
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے
خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا
عادل منصوری
شکوؤں کو اٹھا رکھنا، آنکھوں کو بچھا رکھنا
اک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا
مایوس نہ پھر جائے، ہاں پاس وفا رکھنا
دروازہ کھلا رکھنا، دروازہ کھلا رکھنا
(ابنِ انشا کی نظم “دروازہ کھلا رکھنا “کا آخری بند )
کہتا کچھ اور بات ہے اندر کا آدمی
مانوس اپنے گھر کے ہیں دیوار و در سے ہم
شبیر شاہد
شہر بے در کے اسیروں کی طلب دروازے
دے کوئی اسم کہ جو کھول دے سب دروازے
ممتاز اطہر
دستکیں بھی بند تھیں اور کوئی آوازہ نہ تھا
بند حالانکہ ہمارے دل کا دروازہ نہ تھا
عابدکمالوی
میری خاطر نہ در کھلا رکھنا
رات جانے کہاں بسر ہوگی
عابدکمالوی
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
الطاف حسین حالی
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار دے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
صبح دم دروازہء خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
ہم پکاریں اور کھلے یوں کون جائے
یار کا دروازہ پائیں گر کھلا
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار ِ غمکدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
یہ جو فرقت میں ہم دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
غالب
ہاتھ ہونے لگے شل تو یہ احساس ہُوا
دے رہے تھے جہاں دستک وہاں در ہی نہ تھا
اظہر ناظؔر
اس کے سوادِ دید میں آنکھیں برس گئیں
دروازہ جس کے گھر کا رہا میرے گھر کے ساتھ
احسان رانا
کوئی دستک بھی نہیں اور نہ آوازہ بھی
اب تو دیوار بھی روتی ہے وہ دروازہ بھی
مظہراقبال
گھر کے دروازے پہ پچھلی رات جب دستک ہوئی
میں نے یک دم ظلمتِ شب کو سویرا لکھ دیا
آپ کے کوچے سےمانوس اتنے ہو گئے
اجنبی سا آج اپنے گھر کا دروازے ہوا
سرشار