یوکرین نے جنگ کو ہزار دن مکمل ہونے پر پہلی مرتبہ امریکی لانگ رینج ATACMS میزائلوں سے روسی سرزمین پر حملہ کردیا۔
روس کا کہنا تھا کہ برائنکس کے علاقے میں یوکرین کی جانب سے داغے گئے 6 میں سے پانچ امریکی لانگ رینج میزائلوں کو مار گرایا گیا جن میں سے ایک میزائل کا ملبہ فوجی تنصیب پر گرا جس سے آگ لگ گئی تاہم آتشزدگی پر جلد ہی قابو پالیا گیا تھا، واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
دوسری جانب یوکرین نے دعویٰ کیا کہ اس نے روس کے اندر 110 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اسلحے کے ڈپو پر حملہ کیا جس سے دوسرے دھماکے بھی ہوئے، یوکرین کی جانب سے حملے میں استعمال کیے گئے اسلحے کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تاہم حکومتی ذرائع نے تصدیق کی کہ حملے کیلئے امریکی ساختہ ATACMS میزائل استعمال کیے گئے۔
ادھر امریکی اہلکار کا دعویٰ تھا کہ یوکرین کی جانب سے روسی علاقے میں موجود اسلحے کے ڈپو پر 8 میزائل داغے گئے تھے جن میں سے دو کو روس نے ناکارہ بنایا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی عنقریب سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے یوکرین کو روس کیخلاف امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
امریکا کی جانب سے یوکرین کو روسی سرزمین پر حملوں کیلئے امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت پر ردعمل دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ روس کی زمین پر امریکی ساختہ ATACMS میزائلوں کا استعمال مغرب کی جانب سے تنازعے کو بڑھانے کا واضح اشارہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے ہتھیاروں کے استعمال سے واشنگٹن جنگ میں براہ راست فریق بن جائے گا جس کے نتیجے میں روسی کارروائی ہوگی۔
دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ روس پر حملے کیلئے یوکرین کی جانب سے استعمال کیے گئے میزائلوں کی رینج 300 کلومیٹر تک تھی تاہم ان کی مار کرنے کی حد ان میزائلوں سے کہیں زیادہ کم ہے جو ماسکو کی جانب سے یوکرین پر استعمال کیے گئے، روسی ہائپر سونک میزائلوں کی رینج 2000 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے نئی جوہری حکمت عملی پر دستخط کیے گئے تھے جسے واشنگٹن کیلئے ایک انتباہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
روسی صدر نے جوہری پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے منظوری دی کہ جب روس کی علاقائی سالمیت کو خطرہ محسوس ہوا تو جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی یوکرین کو دی جانے والی امریکی امداد میں اضافے پر تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگ کو جلد ختم کریں گے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یہ سب کس طرح کریں گے۔