یہ بچے کی کسٹڈی کا کیس تھا.
تحریروتحقیق ۔ محمد شہزاد اسلم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ یہ بچے کی کسٹڈی کا کیس تھا۔۔۔ تحریروتحقیق ۔ محمد شہزاد اسلم) والدین کی راہیں تین برس پہلے جدا ہو چکی تھیں۔ عالیہ اور سلمان دونوں پڑھے لکھے تھے دونوں نے چُپ چاپ علیحدگی کو بہتر جانا مگر تاحال دونوں میں سے کسی نے بھی نہ طلاق دی اور نہ ہی دوسری شادی کا سوچا. شادی کی خوشبو، رشتے کی مٹھاس اور چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی رم جھم سب ماضی کی کہانی بن گئے۔
لیکن ان دو ٹوٹے دلوں کی سب سے قیمتی کڑی وہ دس سالہ بچہ تھا…… علی حسن….. جو ماں کے پاس رہتا مگر دل شاید کہیں اور تھا۔
ماں چاہتی تھی کہ علی اس کے پاس ہی رہے. وہی اسے پالے، پڑھائے، بڑا کرے. جبکہ باپ چاہتا تھا کہ علی اب اس کے سائے میں آئے، باپ کی انگلی پکڑ کر زندگی کے موڑ موڑ پر چلنا سیکھے۔
معاملہ عدالت میں تھا۔
اور میں……. میں اس باپ یعنی سلمان کا وکیل تھا جس کی آنکھوں میں برسوں کی محرومی اور امید کی تیز چمک دونوں موجود تھیں۔
عدالت میں ہر پیشی پر کمرۂ عدالت جیسے جذبات کی حدت سے بھر جاتا۔ ماں اپنی محبت کے قصے سناتی، باپ اپنی محرومیوں کی داستان رکھتا۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی دلگداز کہانی رکھتے تھے.
میں قانون کی زبان میں کہتا: “حضور! بچے کی بھلائی، اُس کی نفسیات….. یہی اصل بنیاد ہے۔”
کسٹڈی کے کیسز میں دلائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی رائے کو ہمیشہ مقدم رکھا جاتا ہے کہ بچہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے. جج نے جب بچے کو طلب کرنے کا حکم دیا تو لمحہ مزید کٹھن ہو گیا۔کمرۂ عدالت کی فضا میں ایک عجیب خاموشی اتر آئی تھی۔ وہ دس سالہ علی کمرے میں داخل ہوا. بکھرے بال، صاف ستھرا اسکول کا یونیفارم اور ننھی سی آنکھوں میں بے شمار سوال۔
جج نے نرمی سے پوچھا:
“بیٹا! آپ کس کے پاس رہنا چاہتے ہیں؟”
علی نے جھکی ہوئی پلکوں کو اوپر اٹھایا، پھر ایک نظر ماں پر، ایک نظر باپ پر اور پھر ایک جملہ کہا:
“انکل! اماں بہت اچھی ہیں، اپنی بیماری اور ملازمت کے باوجود مجھے کھلاتی ہیں، کپڑے پہناتی ہیں، سکول چھوڑنے جاتی ہیں. میں ایسے ماما کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں”.
اس کے بعد علی تھوڑے توقف کے بعد بولا: اگر بابا کے پاس رہوں گا تو مجھے بھی بابا کہنے کو دل کرے گا۔”
ماں کے آنسو بہنے لگے، باپ کی پلکیں بھیگ گئیں۔
اور میں؟
میں نے پہلی بار اپنی دلیلوں کو علی حسن کی پلکوں کی نمی میں ڈوبتے دیکھا۔
کمرۂ عدالت میں دفعات اور دلائل کی بھاری کتابوں پر ایک دس سالہ بچے کی سادہ سی خواہش غالب آ گئی تھی۔
ماں نے روہانسی آواز میں کہا:
“میرا بیٹا مجھ سے دور ہو جائے گا؟”
علی نے فوراً آگے بڑھ کر ماں کا ہاتھ پکڑا جیسے اس کا ننھا دل ماں کی ممتا کو یقین دلانا چاہتا ہو:
“اماں! میں بابا کے ساتھ بھی رہوں گا… اور آپ کے ساتھ بھی!”
عدالت میں، میں نے اپنی درخواست کا پیراگراف دوبارہ پڑھا:
“بچے کی بہترین پرورش اور نفسیاتی بھلائی والد کی تحویل میں دینا قرینِ انصاف ہے۔ ماں کو ملاقات کا مکمل حق حاصل ہو گا تاکہ بچے کے دل میں ماں کی کمی کبھی نہ ہو۔”
مگر علی حسن کی بات سننے کے بعد جج صاحب نے اپنی عینک اتارتے ہوئے میری جانب دیکھ کر آخری جملہ کہا جو آج تک میرے دل میں نقش ہے:
“بچوں کی والدین کیلئے محبت کے کیس میں کبھی ہار جیت نہیں ہوتی. یہ محبت تو بس ایک آغوش سے چھین کر دوسری آغوش میں منتقل ہوتی ہے. وکیل صاحب یہاں معاملہ زرا ہٹ کر ہے. آپ بچے کو تقسیم کیوں کر رہے ہیں. بچہ دونوں کے پاس رہنا چاہتا ہے. آپ کوشش کرکے کوئی درمیانی راستہ نکالیں”. میں نے پہلے اپنے کلائنٹ اور پھر اپنے فاضل دوست مخالف وکیل کی جانب دیکھا. جج صاحب نے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ دے دی. اگلے دن ایک دفتر میں حسن کے والد اور والدہ و دیگر رشتےداروں کی ایک ملاقات شیڈول کی گئی. گلے شکوے ہوئے، چھوٹے چھوٹے گھریلو جھگڑے وغیرہ دوبارہ ڈسکس ہوئے. بالآخر معاملہ صلح صفائی کی طرف چل نکلا. دو دن بعد عالیہ کے گھر ملاقات تھی. سبھی لوگ عالیہ کے گھر پہنچ گئے. سلمان بھی اپنی والدہ کے ساتھ وہیں پہنچ گیا. حسن اپنی دادی کو بڑے جوش سے ملا. دادی نم آنکھوں سے پوتے کو سینے سے لگا کر کچھ لمحے ساکت کھڑی رہی. قصہ مختصر اس ملاقات میں دونوں خاندانوں کی صلح کا معاملہ طے پا گیا اور اگلے ہی دن عالیہ سلمان کے گھر آ کر دوبارہ آباد ہو گئی.
جب ہم رخصت ہونے کیلئے گھر سے باہر نکلے تو علی حسن باپ کا ہاتھ پکڑے تھا اور دوسری طرف ماں کے دوپٹے کے پلو کو مٹھی میں دبا رکھا تھا۔
میں سوچنے لگا: قانون میں شاید دفعات بدلتی رہیں، دلیلیں لڑتی رہیں لیکن بچوں کا دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ بتا دیتا ہے کہ اسے کہاں محبت کی خوشبو آتی ہے اور کہاں سے بچھڑنے کا خوف کم ہوتا ہے۔
تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.
…………………….قلم کٹہرا…………………….