یہ بڑی اذیت ناک زندگی ہے. یہ اذیت کسی کو سمجھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بہت سے سامان کے ساتھ دوسرے شہر جانے والے شخص کی رات ٹرین لیٹ ہونے پر جب پلیٹ فارم پر اتی ہے تو وہ سو نہیں پاتا. کیونکہ اسے اپنے سامان کا ڈر ہوتا ہے. وہ دیکھتا ہے اسی ٹرین کے انتظار میں ایک قلی قریب ہی بے فکر سو رہا ہے. قلی کے پاس چوری ہونے والا کوئی سامان نہیں ہوتا. اس لئے بے فکری اسکا نصیب بنتی ہے.
اسی ڈر و خوف نے ہم سے پہلے دیواریں دروازے پھر مضبوط چھتیں بنوائیں. ایک ایسی بند جگہ جہاں باہر سے کوئی نہ آسکے یہ یقین ہمیں مطمئن کرتا ہے. جس کے پاس جتنی زیادہ پونجی ہے اسے اتنے ہی مضبوط و محفوظ یقین کی تلاش رہتی ہے. یہ اسباب کی دنیا ہے.
دوسری طرف ایک خیالات کی دنیا ہے. لوگ اپنی خیالی دُنیا تخلیق کر لیتے ہیں. اس دُنیا میں انا یعنی ego بادشاہ ہوتی ہے. جس نے جتنے زیادہ اسباب تخلیق کر لئے اس کی انا اتنی ہی طاقتور ہو جاتی ہے. اس انا کی پھر اپنی خواہشات ہوتی ہیں جو اسباب کی دنیا میں سمجھ نہیں آتیں.
مثلاً ایک شخص صرف اس لئے دن رات محنت کر رہا ہے کہ اس نے کسی کو نیچا دکھانا ہے. وہ اپنی کامیابی میں دوسرے کی تکلیف کی خواہش پال لیتا ہے. کوئی دن رات کتابیں پڑھ رہا ہے کہ دوسرے کو لاجواب کر دے. کوئی نئے رشتے بنا رہا ہے ان پر حد درجہ مہربان ہے کیونکہ اسے کسی پرانے رشتے کو تکلیف دینی ہے. کوئی شہر شہر ملک ملک گھوم کر تصاویر ویڈیوز بنا رہا ہے کیونکہ اس نے دوسروں کو دکھانا اور ان کو جلانا ہے.
اس دنیا میں اطمینان و سکون نہیں ہوتا. جب تک کوئی کامیاب ہوتا ہے وقت بدل چکا ہوتا ہے. نیا وقت اس کی انا کی تسکین نہیں کرتا. دوسروں کو لاجواب کرنے والے کو علم نہیں ملتا صرف معلومات ملتی ہیں. نئے رشتے مایوس کرتے ہیں جبکہ دُنیا بھر میں ویڈیوز بنانے اور تصاویر کھنچوانے والے اکثر دنیا دیکھ ہی نہیں پاتے.
اسباب کی دنیا میں دیواریں دروازے اس لئے لگاتے ہیں کہ کوئی اسباب اٹھا نہ لے. خیالات کی دنیا میں دیواریں اس لئے اٹھانی لازم ہے کہ سکون و اطمینان غارت کرنے والے اسباب اندر جگہ نہ بنا لیں. یہ بڑی اذیت ناک زندگی ہے. یہ اذیت کسی کو سمجھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے. آدمی کی زندگی سے اطمینان نکل جاتا ہے.
ریاض علی خٹک riazalikhattak