Daily Roshni News

یہ قصور کتنا بڑا تھا

یہ قصور کتنا بڑا تھا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب سے ناصرہ کے شوہر نے دوسری شادی کی تھی اور اسے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا تھا، اس کا حال بہت برا ہو گیا تھا۔ اس کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ وہ نیم پاگل سی ہو کر رہ گئی تھی۔ جائے تو کہاں جائے؟ اللہ جانتا تھا کہ یہ معصوم بچہ ناصرہ کا لختِ جگر تھا، اس کا اپنا خون تھا، مگر زمانے نے ناصرہ کی خوشیاں چھین لینے کا تہیہ کر لیا تھا۔

وہ اس کا دشمن بن چکا تھا۔ اس کے شوہر کے دل میں یہ غلط فہمی ناصرہ کی ساس کی پیدا کردہ تھی اور بیٹا ماں کی ہر بات پر سر جھکا دیتا تھا۔ ناصرہ کی بس یہی ایک غلطی تھی کہ ساجد اسے خاندان کی مرضی کے خلاف بیاہ کر لایا تھا۔ ناصرہ اسے اچھی لگی تھی اور اس پسندیدگی نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ساجد نے سگی خالہ کی بیٹی سے منگنی توڑ ڈالی اور ناصرہ کو بیاہ کر گھر لے آیا۔

یہ قصور کتنا بڑا تھا، کیا یہ زخم ساجد کی ماں برداشت کر سکتی تھی؟ناصرہ پر جھوٹا الزام لگا کر ساجد کی ماں نے اپنی دانائی سے یہ ثابت کر دیا کہ ناصرہ بدچلن، بدکردار اور گستاخ ہے۔ وہ کسی اور سے بھی ملتی ہے۔ ساس نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بہو بے بس ہو کر رہ گئی جبکہ وہ بے قصور تھی پھر بھی اپنی بے گناہی ثابت نہ کر سکتی تھی۔ آخر کار ساجد ماں کے جال میں پھنس گیا اور اس نے ناصرہ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسے طلاق دے دی اور وہ بے گھر ہو کر کہیں کی نہ رہی۔جھونپڑیوں کی ایک لمبی قطار شہر کے کچھ فاصلے پر ایک گندی بستی میں دور تک پھیلتی چلی گئی تھی۔

ناصرہ نے بھی وہیں پناہ لی۔ غریبوں کے دل بڑے ہوتے ہیں، وہ کسی مظلوم کے آنسوؤں کے سامنے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔ غریبوں نے چندہ اکٹھا کر کے ناصرہ کو بھی ایک جھونپڑا ڈال دیا۔ بستی والوں نے سوچا اگر پچاس جھونپڑیوں میں ایک اور جھونپڑی کا اضافہ ہو گیا تو بھلا ہمارا کیا گیا، زمین تو اللہ کی ہے اور آسمان بھی اس کا بنایا ہوا چھپر ہے، پھر ہم کسی کے یہاں رہنے پر اعتراض کیا کریں؟چھوٹے بچے کا خیال پڑوسن بوا رکھتی تھی اور ناصرہ کام کی تلاش میں دردر ماری ماری پھرتی تھی۔ کبھی کام مل جاتا تھا، کبھی فاقے ہو جاتے تھے اور آج تو پڑوسن بوا بھی بیٹی کے گھر گئی ہوئی تھی۔

یہ اس کی زندگی کی سب سے زیادہ بھیانک رات تھی۔ آج قسمت اپنا فیصلہ جلد ہی سنانے والی تھی۔ بادل اور کالی گھٹائیں خوب گھِر گھِر کر آرہی تھیں اور ایک طوفان کے آنے کی پیش گوئی کر رہی تھیں، مگر وہ ان باتوں سے بے خبر تیز تیز قدم اٹھائے ایک راستے پر چلی جا رہی تھی۔

وہ تنہا نہ تھی، اس کا تین سالہ بچہ بھی ایک بوسیدہ سی جھونپڑی میں پڑا بھوک اور پیاس سے نڈھال اپنی غمزدا ماں کا انتظار کر رہا تھا۔ شاید اس بچے کا انتظار کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار تھا۔ اس کی ماں بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے کچھ لینے گئی ہوئی تھی۔ ماں کے پاس ایک خراب سا برتن تھا مگر اس بیچاری کے پاس پیسے نہ تھے۔ تقدیر کے مارے ہوؤں میں سے یہ بھی ایک تھی، وہ جو پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل اور خوار ہو جاتے ہیں اور جب وہ مجبور ہو کر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو دنیا والے ان کے ہاتھوں کو نفرت سے جھٹک دیتے ہیں۔

وہ سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی اور آتے جاتے لوگوں کو حیرت سے دیکھتی رہی۔ آج بستی والوں سے اس کی امید ٹوٹ چکی تھی۔ وہ کئی بار ان کے سامنے ہاتھ پھیلا چکی تھی۔ اب تو بستی والے بھی اس کی ضرورتوں سے تنگ تھے۔ بچے کی وجہ سے وہ کہیں مستقل ملازمت بھی نہ کر سکتی تھی اور جھونپڑی والے کیا کرتے، وہ تو خود اس جیسے غریب تھے۔ تھوڑی دیر تک اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ اچانک اس نے یہ محسوس کیا کہ ایک شخص بہت دیر سے اس کے قریب کھڑا ہے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ نیچے دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/01/majboor-maa.html

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

#urduline #urdushayari #urdupoetry #quotes #kahani #kahaniyan #stories #urduquotes #Qissa #quoteoftheday #urduadab #urdu #everyone

Loading