یہ مقدمے صرف کاغذوں پر نہیں چلتے۔۔۔
تحریر۔۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ یہ مقدمے صرف کاغذوں پر نہیں چلتے۔۔۔ تحریر۔۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور)وہ ایک سرد شام تھی۔ دفتر کے در و دیوار پر دھند کی نمی بسی ہوئی تھی کہ دروازہ کھلا۔ ایک شخص ٹھٹھرتا ہوا اندر داخل ہوا۔ یخ بستہ کانپتے ہاتھوں میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا مگر وہ ٹکڑا جیسے اس کی روح کے پرخچے اڑا چکا تھا۔ آنکھوں میں شکست کی لکیریں، لبوں پر سوال اور چہرے پر وہ اذیت تھی جو صرف ایک شوہر جان سکتا ہے۔
اس نے وہ کاغذ میرے سامنے رکھا۔ میں نے نظر ڈالی تو وہ خلع کا نوٹس تھا۔ ایک عورت کی جانب سے جو شاید کبھی اسکی زندگی کی شریکِ حیات تھی مگر اب صرف لفظوں کی زہریلی لکیر بن چکی تھی۔
میں نے آہستہ سے پوچھا:
“کیا آپ نے صلح کی کوشش کی؟”
وہ ہلکی سی ہنسی ہنسا. ایسی ہنسی جس میں طنز نہیں بلکہ شکست چھپی تھی۔ “جناب ہر بار صلح کا بولا، ہر حربہ استعمال کر لیا، ہر در پر دستک دی مگر وہ عورت غرور کے پہاڑ پر بیٹھی ہے۔ نہ آنکھ جھکاتی ہے، نہ دل نرم کرتی ہے۔”
عدالت کے کمرے میں کئی دنوں تک ہم نے کوشش کی۔ کبھی جج کے سامنے، کبھی بند کمرے میں ثالثی کے دوران۔ کبھی میرے آفس میں تو کبھی میرے مخالف وکیل کے دفتر میں پنچائت ہوئی. میں نے بار بار کہا:
“بی بی! شوہر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر طلاق ہی واحد راستہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ سالہ کمسن بچہ دیکھیے، اس کی معصوم آنکھیں آپ سے سوال کر رہی ہیں۔”
مگر وہ عورت پتھر بنی بیٹھی رہی۔ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ بالکل معمولی سی باتوں کا جھگڑا تھا. پہلے کہتی ہے کہ یہ گھر کا خرچہ پورا نہیں دیتا. جس پر لڑکے نے تُرنت کہا کہ میری ستائیس ہزار تنخواہ ہے(اس وقت فیکٹری ورکرز کی شاید یہی تنخواہ ہوتی تھی). اوور ٹائم لگا کر پینتیس ہزار بنتے ہیں. اٹھائیس ہزار روپے گھر دیتا ہوں. چار ہزار روپے ماں کی دوا کے دیتا ہوں. دو تین ہزار اپنی جیب میں رکھتا ہوں چھوٹے موٹے اخراجات کیلئے”. پھر کہتی کہ میرا اتنے پیسوں سے گزارا نہیں ہوتا. سب نے سمجھایا کہ بیٹی اب وہ جو کماتا ہے تمہارے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے. ایسے ہزاروں ورکرز ہیں جن کی بیگمات گزارا کرتی ہیں تم بھی اپنا بجٹ اسی میں بناؤ، اپنا گھر برباد نہ کرو. اس کے بعد کہنے لگی کہ یہ گھر توجہ نہیں دیتا. اس پر بھی لڑکے نے کہا کہ اوور ٹائم ڈال کر اکثر تقریباً بارہ گھنٹے ڈیوٹی اور تین گھنٹے جانے آنے میں لگتے ہیں. آٹھ گھنٹے میرے پاس بچتے ہیں. گھر کا چھوٹا موٹا کام اور پھر میں نے سونا بھی ہوتا ہے. غرضیکہ اس عورت نے ہر بات پر کسی کی نہ مانی. حیرت اسکے والد والدہ پر تھی کہ دوران پنچایت وہ بھی اسے بالکل بھی سمجھا نہیں رہے تھے. اس کے لہجے میں اکڑ تھی، الفاظ میں زہر اور آنکھوں میں ایسی سختی کہ بہار بھی خزاں کا لباس پہن لے۔
آخرکار تمام تر کوششوں کی ناکامی کے بعد فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی۔ قلم کی ایک جنبش نے برسوں کی رفاقت کے دھاگے کاٹ دیے۔ عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کر دی۔
شوہر کی آنکھوں سے بے آواز آنسو بہہ نکلے۔ وہ مرد جسے دنیا مضبوط اور بے حس سمجھتی تھی، آج عدالت کے فرش پر ٹوٹ گیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے کمرے میں ہر چیز ساکت ہو گئی ہو۔
پھر ایک اور فیصلہ ہوا۔ ڈیڑھ سالہ ننھا بچہ ماں کی گود میں دے دیا گیا کیونکہ وہ ابھی مدر فیڈ پر تھا۔ سب کے کہنے پر ماں نے وہ بچہ کچھ لمحے کیلئے باپ کی گود میں دیا وہ بچہ جو ابھی لفظ “ابو” کو پوری طرح بول بھی نہ پایا تھا، اپنے باپ کی طرف دیکھ کر رونے لگا۔ باپ نے اسے سر تا پا چوما، اسکا چہرہ، اسکے ریشمی بھورے بال، اسکے کان، اسکے ہاتھ، اسکے ننھے سرخ سپید پاؤں. بچہ ماں کے حوالے تو کر دیا گیا مگر اس کی ننھی بانہیں دوبارہ باپ کی طرف بڑھتی رہیں اور باپ اپنی ترسی نظریں اپنے بیٹے پر ٹکائے بس کھڑا رہا۔
وہ لمحہ گویا قیامت سے کم نہ تھا۔ میں نے دیکھا باپ کی آنکھوں میں وہ چمک بجھ گئی تھی جو صرف بیٹے کے قہقہے سے زندہ رہتی ہے اور بچہ ماں کی گود میں جاتے ہوئے بار بار پلٹ کر باپ کو پکار رہا تھا. عدالت کی کھڑکی سے دھوپ اندر آ رہی تھی مگر اس روشنی میں بھی ایک اداسی چھپی ہوئی تھی جیسے سورج بھی اس منظر پر سوگوار ہو۔
عموماً طلاق کے مقدمات میں عورت مظلوم ہوتی ہے مگر ہر کیس میں ایسا نہیں ہوتا. کئی طلاق کے مقدمات میں عورت کے کردار کو میں نے بالاتر پایا یہ مقدمہ بھی انھی میں سے ایک تھا لہذا میں نے اسے بھی قلم بند کر لیا۔ ایک فائل میں ایک اور ٹوٹے ہوئے رشتے کا اندراج ہو گیا مگر دل کہہ رہا تھا: “یہ مقدمے صرف کاغذوں پر نہیں چلتے، یہ تو روحوں پر کٹتے ہیں اور وہیں سے لہو ٹپکتا ہے۔”
تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.
…………………. قلم کٹہرا………………….