یہ کہانی اس دنیا کی نہیں ہے۔۔
اور شاید کبھی ہو بھی نہ سکے۔۔
تحریر۔۔۔شمائلہ حسن
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ یہ کہانی اس دنیا کی نہیں ہے۔۔اور شاید کبھی ہو بھی نہ سکے۔۔تحریر۔۔۔شمائلہ حسن)یہ کہانی اس دنیا کی نہیں ہے۔۔اور شاید کبھی ہو بھی نہ سکے۔۔ تحریر۔۔۔شمائلہ حسن)یہ اس متوازی دنیا کی کہانی ہے جہاں انصاف کا پیمانہ مردوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔۔ بلکہ غیرت کے نام پر خون بہانے کا حق عورتوں کو حاصل ہے۔۔۔
یہاں عدالت میں عورتیں بیٹھتی ہیں۔۔۔ جبکہ کٹہرے میں مردوں کی جھکی گردنیں انصاف مانگتی ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹیل میدان دور دور تک خاک اڑا رہا تھا۔۔
سورج سوا نیزے پر تھا۔۔ اس کی تپش زمین پر موجود ہر چیز جھلسائے دے رہی تھی۔۔
میدان کے بیچوں بیچ فیروزہ سلطانہ اپنے خیمے میں بیٹھی تھی۔ آس پاس خدمتگار مرد اور عورتیں موجود تھے۔ سرداردنی فیروزہ کے چہرے پر سختی درج تھی۔۔ آنکھیں کسی خیال کے تحت آگ اگل رہی تھیں۔۔
وہ اپنے جلال کے لئے مشہور تھی۔
اس کے لئے غیرت، مرد کی جان سے زیادہ قیمتی تھی۔۔
“سردارنی! سب آ گئے ہیں۔۔۔” اندر داخل ہونے والی ایک بیس بائیس برس کی لڑکی تھی۔ بلوچی لباس پہنے، کندھے پر رائفل لٹکائے وہ مودب انداز میں گویا ہوئی اور گردن جھکا کر ایک جانب کھڑی ہو گئی۔۔
سردارنی نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔ گہرا ہنکارا بھرا اور جگہ چھوڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
باہر نکلی تو قبیلے کی بزرگ اور بااثر خواتین ایک جگہ جمع ہو چکی تھیں۔۔
ایک چوکور شامیانے کے اندر بچھائی گئی چارپائیوں پر وہ سب براجمان تھیں۔۔
سب کے چہروں پر وقت کی سختی تھی۔ اور آنکھیں برسوں کے فیصلوں کی گواہ!
شامیانے کے باہر ایک قطار میں مرد کھڑے تھے۔۔
جھکی گردن۔۔ خوفزدہ نگاہیں۔۔ بھیگی پشت اور دھوپ کی تمازت سے جھلستے چہرے۔۔
سردارنی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے نزدیک آ کر رکی۔۔
ایک قہر بھری نظر سب پر ڈالی۔۔
“یہ نذیر ہے۔” ساتھ چلتی لڑکی نے چالیس کے پیٹھے میں موجود ایک شخص کی جانب اشارہ کیا۔۔
“پچھلے ہفتے اس نے شمشاد بوا کی بیٹی کو بس اڈے پر چھیڑا۔۔
اس کی کمر پر چٹکی کاٹی اور دوپٹہ کھینچتا گزر گیا۔۔”
سردارنی کی آنکھ میں اس کے لئے حقارت ابھری۔۔
“اسے بیس کوڑے مار کے ایک مہینے کے لئے کال کوٹھڑی میں ڈال دو۔۔” نذیر ہاتھ جوڑتے گھگھیایا لیکن پیچھے کھڑی مضبوط جثے کی عورت اسے اپنے ساتھ گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔۔ سردارنی کی نگاہ دوسرے مرد پر ٹھہر گئی۔۔۔
“یہ شبیر ہے۔ اس نے دو روز پہلے اپنی حاملہ گھر والی کو اتنا مارا کہ وہ مرتے مرتے بچی۔۔” سردارنی نے اس کے جبڑے پر ایک تھپڑ رسید کیا۔۔
“نامرد!” وہ حقارت سے بڑبڑائی۔۔
“اسے تب تک کوڑے مارو جب تک یہ مرنے کے قریب نہ ہو جائے۔ ہر زخم بیوی کے درد کا عکاس ہونا چاہئیے۔۔”
ساتھ چلتی عورت کی ہمراہی میں وہ آگے بڑھ گئی۔۔
“اکبر۔۔۔ اس نے آٹھ سال کی بچی کا ریپ کیا ہے۔۔۔” سردارنی یہ سنتے ہی غصے سے پاگل ہو گئی۔۔ اس کے پیٹ میں ایک ٹھڈا مارتے اس نے اس آدمی کو زمین پر گرایا۔۔ پھر لاتوں سے اس کی اتنی تواضع کی کہ وہ ادھ موا ہو گیا۔۔
“اس کے حساس اعضاء پر بجلی کے جھٹکے دو۔۔ جب یہ مرنے کے نزدیک ہو جائے۔۔ تو اسے زندہ زمین میں آدھا گاڑ کر اسی چٹیل میدان میں چھوڑ دو۔۔ دیکھو کون سا درندہ اسے پہلے نوچتا ہے۔”
سردارنی فیروزہ سلطانہ کی آنکھوں میں اب تیز سرخی جھلکنے لگی تھی۔
تب ہی ایک اور نوجوان مرد کو آگے دھکیلا گیا۔
“یہ حاکم ہے۔ لڑکیوں کو میسینجر پر فحش میسیجز بھیج کر تنگ کرتا ہے۔” سردارنی نے ایک گہرا سانس بھر کر اسے ایک تیز گھوری سے نوازا۔۔
“اسے عورتوں کے کپڑے پہنا کر شہر کے چوراہے پر بٹھاؤ۔ ہر راہگیر کو اجازت ہو کہ وہ اس پر تھوکے یا جوتی مارے۔ یہاں تک کہ اس کی ٹھرک کا بخار اتر جائے۔۔” سردارنی کے حکم پر دبی دبی سی ہنسی سنائی دی۔۔
اگلا مرد پچاس سال کے لگ بھگ آدمی تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں عیاری تھی۔ لیکن چہرے پر مظلومیت کا چولا اوڑھا ہوا تھا۔۔
“یہ فردوس ہے۔ نوکرانی پر گندی نظر رکھتا ہے۔۔ موقع ملتے ہی اس نے کل اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ خوش قسمتی سے بچ نکلی۔۔”
“ہماری عورتیں تمہاری تسکین کا ذریعہ نہیں ہے خبیث بڈھے۔۔” کمر کے گرد بندھے پٹکے سے خنجر نکالتی وہ دھاڑی۔ فردوس نے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
“اس کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دو، تاکہ دوبارہ کسی عورت کو ہاتھ لگانے کے قابل نہ رہے۔” اپنا خنجر پیچھے کھڑی جلاد لڑکی کے ہاتھ میں پکڑاتے وہ آگے بڑھ گئی۔۔
“اس نے کیا کیا؟” ستر برس کے بوڑھے کی جانب اشارہ کرتی وہ حیران ہوئی۔۔
“بیوی کے مرنے کے بعد یہ ملازمہ کی بیٹی سے شادی کے لئے اسے زور دے رہا ہے۔” سردارنی نے افسوس سے سر ہلایا۔
“اس عمر میں بھی ایسی خواہشیں۔” وہ طنزیہ گویا ہوئی۔
“چند دن کا کھانا ساتھ باندھ کر اسے ہمیشہ کے لئے پہاڑوں پر بھیج دو۔” ہاتھ جھلاتی وہ آگے بڑھ گئی۔
تب ہی ایک درمیانی عمر کا شخص، صاف ستھرا لباس پہنے زنجیروں میں جکڑے گاڑی سے اتارا گیا۔۔ سردارنی چونک کر پلٹی۔
“یہ کہاں رہ گیا تھا؟”
“یہ گھر سے بھاگ گیا تھا۔۔ ہماری سپاہی عورتیں اس کے انتظار میں تھیں۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے گرفتار کر لیا گیا۔”
مرد کی زنجیر تھامے عورت نے بلند آواز میں بتایا۔
“اس نے کیا کیا؟” سردارنی اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔
“اس نے اپنی بہن کو باپ کی جائیداد سے دستبرداری پر مجبور کیا۔ دھمکایا کہ اگر وہ حصے کا مطالبہ کرے گی تو اس کا کردار اچھالا جائے گا۔” سردارنی کی آنکھوں میں نفرت اتر آئی۔
“جائیداد کے سارے کاغذ اس کی بہن کے قدموں میں رکھ کر اسے سو کوڑے مارو۔ ہر کوڑا اس بیٹی کے نام۔۔ جو صدیوں سے اپنے حق سے محروم رکھی گئی ہے۔۔”
شہزاد کی احتجاجی چیخیں ابھی ہوا میں تھیں کہ اگلا مجرم سامنے لایا گیا۔
“یہ سلیم ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر اس نے دوسری شادی کر لی۔ عورت کو منحوس کہہ کر دربدر کر دیا۔” سردارنی نے مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور اس کے سر پر پھینکی۔
“اسے بانجھ پن کی دوا پلائی جائے کہ اس جیسا بیٹی سے نفرت کرنے والا نسل آگے نہ بڑھا پائے۔ اور بیٹے خواہش پالے دنیا سے چلا جائے۔”
سردارنی آگے بڑھی تو نگاہ ایک دبلے پتلے لڑکے پر ٹکی۔۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا لیکن چہرے پر شرمندگی نہ تھی۔
“نام ہے معظم۔۔ نکاح کے بعد جہیز کم لانے پر لڑکی کو طلاق کی دھمکی دی ہے۔۔ اس کی ماں کو گالیاں دیں اور باپ کی پگ اچھالی۔۔” سردارنی کا چہرہ تاریک ہو گیا۔
“اسے عورتوں کے جوتے میں دس دن تک کھانا کھلایا جائے۔ اور اگلے ایک سال تک یہ سارے قبیلے کے گھروں میں جھوٹے برتن دھوئے گا۔۔ تاکہ اسے اپنی اوقات کا اچھے سے اندازہ رہے۔۔”
اگلا مجرم ایک بدحال نوجوان تھا جس کے ہاتھوں پر جلنے کے نشان تھے۔۔ سردارنی نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔
“یہ امجد ہے۔۔۔ ایک لڑکی نے شادی سے انکار کیا تو اس نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔” سردارنی کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے۔۔ اس نے حقارت سے اس کے منہ پر تھوکا۔۔
“اس کے دونوں ہاتھ تیزاب میں ڈال دئیے جائیں۔۔” حکم دے کر دانت پر دانت جمائے وہ آگے بڑھ گئی۔۔
صف میں موجود آخری شخص ایک خوش شکل نوجوان تھا۔۔ سردارنی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔ وہ مسکرایا۔۔
“یہ بہت شاطر ہے۔۔” سردارنی پلٹ کر گویا ہوئی۔۔
“جی۔۔ اس نے بیوی کے ہوتے ہوئے باہر دوسری عورتوں سے چکر چلایا۔ کئی عورتوں کو وعدۂ وفا دے کر چھوڑ دیا۔” سردارنی نے زہر خند قہقہہ لگایا۔
“اسے ایک سال تک کے لئے سورج کی روشنی سے محروم کر دو۔۔” اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے وہ حکم دیتی آگے بڑھ گئی۔۔
میدان خالی ہو چکا تھا۔۔
سب کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع کیا جا چکا تھا۔۔
سردارنی پلٹ کر شامیانے تک آئی۔۔
“یہ ہمارے مرد ہیں۔۔۔ ہماری غیرت کا امتحان!!!
یہ تو بس چند مثالیں تھیں۔ جس دن عورت نے غیرت کے نام پر قتل کرنا شروع کر دئیے۔۔ دنیا سے بیشتر مردوں کا صفایا ہو جائے گا۔۔
بات مکمل کر کے فیروزہ سلطانہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔
سورج اب بھی جلال میں دکھتا تھا۔۔ مگر ایک کالی بدلی کہیں سے آ نکلی تھی۔
وہ ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔۔
ایک لمحے کو اس کے دل میں کوئی پرانا زخم ادھڑا تھا۔۔
کیا وہ خود کبھی کسی نذیر، شبیر یا شہزاد کی بہن، بیٹی، بیوی نہیں تھی؟
کیا فیصلہ دینے والے کبھی معاف نہیں کر سکتے؟
وہ مزید سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
پردہ ہٹاتی وہ خیمے میں داخل ہو گئی۔
ختم شد۔۔۔
تحریر:شمائلہ حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو میری یہ چھوٹی سی کہانی پسند آئی تو اپنی رائے کا اظہار کریں۔
لائک، کمنٹ اور شئیر کرنا ہرگز مت بھولئیے گا۔۔