شہادت ِعظمیٰ
اور
میدان کربلا
مرگ یزید ہے
قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تحریر۔۔۔محمد جاوید عظیمی
نگران مراقبہ ہال ہالینڈ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔شہادت عظمیٰ اور میدان کربلا۔۔۔تحریر۔۔۔محمد جاویدعظیمی ) اللہ تعالیٰ کے محبوب ِمکرم حضرت محمدﷺ اپنی بہت ہی پیاری اور دلاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے دوپھولوں حضرت حسین اور حضرت حسن سے بے انتہا محبت کرتے اگر آپﷺ نماز کی حالت میں ہوتے اور حضرت حسین ؓ آپکی پیٹھ پر بیٹھ جاتے تو نبی رحمتﷺ سجدہ لمبا کر دیتے اور دونوں شہزادوں کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر بازار لے جاتے اور پھر آپ ﷺ بلخصوص حضرت حسین ؓ کی گردن پر بوسہ دیا کرتے ایک روز رسول محتشم ﷺکمرے میں تشریف فرما تھے کہ فرشتوں کے سردار جبریل امین کی آمد ہوئی گفتگو کے دوران حضرت حسین ؓ کھیلتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہو گئے جبریل امین نے سوال کیا یا رسول اللہ یہ بچہ کون ہے؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا یہ میرا نواسہ حسین ہے۔جبریل امین نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس بچے سے متعلق بتانا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی کربلا کے میدان کی مٹی بھی پیش کردی اور عرض کی اس مٹی کو محفوظ کر لیں جس دن یہ مٹی سرخ ہو جائےگی اس بچے حسین ؑ کا سرتن سے جدا ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے بعدازاں یہ مٹی اپنی زوجہ حضرت ام سلمیٰ کو محفوظ کرنے کے لئے دے دی۔ آپﷺ کے اس دنیا سے پردہ کر جانے بعد 61ہجری میں واقعہ کر بلا رونما ہوا،یزید نامی شخص اقتدار میں آیا تو اس نے دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے عوام الناس میں پیش کرنا شروع کر دیا اور اپنی طاقت کے ذریعے حضرت امام حسین علیہ اسلام کو ان امور کی تائید دوسرے لفظوں میں اپنی بیعت کرنے کے لئے دباؤ ڈالتا رہا،مگر امام حسین ؑ نے اس کی تمام باتوں کو رد کر دیا اور یزید کو دین اسلام کی تعلیمات میں کسی طرح کا بگاڑ لانے سے باز رہنے کو کہا اور یہ طے کر لیا کہ کسی کو بھی اپنے نانا کے دین کو مسخ کرکے پیش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے چاہے اس میں ہماری جان بھی چلی جائے۔
حضرت حسین علیہ السلام کے اس فیصلے کے بعد یزید نے آپؓ کو گرفتار کرنے کے لئے حکم دیا جس پر فوری عملدر آمد شروع ہو گیا حضرت حسین علیہ السلام اپنے اہل خانہ اور چند ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ کو روانہ ہوئے تاکہ وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کے خلاف جاری سازشوں سے آگاہ کیا جائے مگر یزیدی فوج نے کربلا کے مقام پر اس قافلے کو روک کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ جبکہ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ تھےاور نہ ہی کوئی جنگ و جدل کا ارادہ رکھتے تھے ایک موقعہ پر امام عالی مقام نے یزیدی فوج سے کہا کہ ہمارا محاصرہ ختم کرو میں اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ہمراہ واپس چلاجاتا ہوں کیونکہ ہم یہاں جنگ کرنے نہیں آئے ہیں، مگر یزیدی فوج نے آپ پر جنگ مسلط کر دی ۔ اس پس منظر میں کربلا کا واقعہ رونما ہوا۔
یزیدی فوج کا لشکر حرب کے ہتھیاروں سے لیس تھا دوسری جانب قافلے میں خواتین و حضرات اور بچے شامل تھے جو کسی طور بھی جنگ یا لڑنے کے لئے نہیں آئے تھے۔ یکم محرم الحرام تا دس محرم الحرام محاصر ے کے دوران یزیدیوں نے ان نہتے افراد پر ہر طرح کی پابندیاں یہاں تک کہ پانی پر بھی پابندی عائد کر دی حضرت امام حسین کے ہمراہ تمام ساتھی اور بلخصوص بچے پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔ باری باری تمام کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ جب امام عالی مقام حضرت اما م حسین علیہ السلام میدان ِ کربلا میں اترےتو ان ظالموں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہر جانب سے تیروں کی بارش کر دی آپ علیہ السلام کے جسم کا کوئی حصہ ا یسا نہیں بچا تھا جس پر زخم نہ ہو،آخر کار جب آپ زخموں سے چُور ہو کر گھوڑے سے گر پڑے تو شہادت کے وقت سے قبل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اس اثنا ء میں ظالم اور بدکردار شخص شمر نے رسول محتشم ﷺ کے پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرتن سے جدا کر دیا۔ یہ وہ شہادت عظمیٰ ہے جس نے دین اسلام کی بنیادوں کو قیامت تک کے لئے مضبوط اور محفوظ بنا دیا اور پھرامام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت عظمیٰ سے ہمیں درس بھی دیا ہے کہ اگر دین اسلام پر کڑا وقت آجائے تو اپنی جانوں اور مال و اسباب کی پرواہ کئے بغیر اسلام کی سربلندی کے لئے عمل پیرا ہوجانا، ہر طرح کی صعوبت برداشت کرلینا مگر دین اسلام پر آنچ نہیں آنے دینا۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت ِعظمیٰ سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ یزید کا نام و نشان مٹ گیا جبکہ امام عالی مقام آج بھی ہر دل میں موجود ہیں۔
قتل ِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بہتر ساتھی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب مکرم رسول محتشمﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امام حسین علیہ السلام کے عظیم پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیقِ جمیل عطا فرمائیں۔آمین ثمہ آمینکر جانے بعد 61ہجری می ی کون ہے