Daily Roshni News

۔۔۔نظم۔۔۔”شاعرہ۔۔۔ پروین شاکر“

”نظم“

”””””ناٹک“““““

”شاعرہ پروین شاکر“

رت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا

آج سے تم آزاد ہو

پروازوں کی ساری سمتیں تمہارے نام ہوئیں

جاؤ

جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اڑو

بادل کے ہم راہ ستارے چھو آؤ

خوشبو کے بازو تھامو اور رقص کرو

رقص کرو

کہ اس موسم کے سورج کی کرنوں کا تاج تمہارے سر ہے

لہراؤ

کہ ان راتوں کا چاند تمہاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دعا لکھے گا

گاؤ

ان لمحوں کی ہوائیں تم کو تمہارے گیتوں پر سنگیت دیں گی

پتے کڑے بجائیں گے

اور پھولوں کے ہاتھوں میں دف ہوگا

تتلی معصومانہ حیرت سے سرشار

سیہ شاخوں کے حلقے سے نکلی

صدیوں کے جکڑے ہوئے ریشمی پر پھیلائے اور اڑنے لگی

کھلی فضا کا ذائقہ چکھا

نرم ہوا کا گیت سنا

ان دیکھے کہساروں کی قامت ناپی

روشنیوں کا لمس پیا

خوشبو کے ہر رنگ کو چھو کر دیکھا

لیکن رنگ ہوا اور خوشبو کا وجدان ادھورا تھا

کہ رقص کا موسم ٹھہر گیا

رت بدلی

اور سورج کی کرنوں کا تاج پگھلنے لگا

چاند کے ہاتھ دعا کے حرف ہی بھول گئے

ہوا کے لب برفیلے سموں میں نیلے پڑ کر اپنی صدائیں کھو بیٹھے

پتوں کی بانہوں کے سر بے رنگ ہوئے

اور تنہا رہ گئے پھولوں کے ہاتھ

برف کی لہر کے ہاتھوں تتلی کو لوٹ آنے کا پیغام گیا

بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے

اور بے چین پروں میں ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی

اپنے کالے ناخونوں سے

تتلی کے پر نوچ کے بولے

احمق لڑکی

گھر واپس آ جاؤ

ناٹک ختم ہوا۔

انتخاب: ادیبہ نور

Loading