Daily Roshni News

۔۔۔۔۔۔۔ رشتے اور معافی ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ رشتے اور معافی ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبق آموز تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں گزشتہ آٹھ سال سے کچہری میں بہترین لائرز کے ساتھ بطور اسٹینو کام کر رہا ہوں  ان آٹھ برسوں میں کمپیوٹر کے کی۔بورڈ نے ہزاروں کیس فائلوں کی زینت بنائے اور اس دوران  عدالت کے کمروں میں نہ جانے کتنے گھر ٹوٹتے، کتنی زندگیاں بکھرتی اور کتنے معصوم بچوں کے چہرے اجڑتے دیکھے۔ یہاں پلیڈنگ کرتے  ہر فائل کے پیچھے ایک کہانی دیکھی سنی پڑھی ، ہر کیس ایک بکھرے خواب کا عکس ہے۔ طلاق کے فیصلے محض قانونی کارروائیاں نہیں بلکہ انسانی جذبات کے زخم ہیں، جو اکثر انا، ضد اور بے حسی سے پیدا ہوتے ہیں۔

فرض کریں پچھلے آٹھ سالوں میں  آٹھ ہزار خواتین نے طلاق کے کیسز دائر کیے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے سات ہزار نو سو نوے کو بعد میں پچھتاتے دیکھا۔ وہی عورتیں جو کسی وقت ضد یا غصے میں آ کر رشتہ ختم کرنے پر تُل گئیں، کچھ ہی عرصے بعد عدالت کے باہر بینچوں پر بیٹھی آنسو پونچھتی نظر آئیں۔ اور ان کے آنسو اکثر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ “کاش اس وقت میں خاموش رہتی، کاش میں ذرا صبر کر لیتی۔”

ان ہزاروں کیسز میں ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ تقریباً پچاس فیصد گھروں کی بربادی میں لڑکیوں کی ماؤں اور جس گھر میں عورت کی حکمرانی رہی اس گھر کے باپ کا کردار تھا۔ وہی مائیں جو مشورے کے نام پر اپنی بیٹیوں کو ضد، انا اور خود پسندی کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ کبھی داماد کی بات پر طعنہ، کبھی بیٹی کے دکھ پر ہوا، کبھی اپنی زندگی کے تجربات کو بیٹی کی زندگی پر مسلط کر دینا۔ اور پھر یہی ضد ایک گھر کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔

میری گزارش ہر ماں سے ہے کہ جب اپنے بیٹے  کا رشتہ کریں تو صرف ایک بات ضرور دیکھیں — اس گھر میں مرد کا احترام ہے یا نہیں۔ اگر وہاں عورت کی آواز مرد سے اونچی ہے، اگر فیصلوں میں عورت کی حکمرانی ہے، تو سوچ سمجھ کر قدم رکھیں۔ کیونکہ کچہری میں ایسے کیسوں کا مشاہدہ کرنے پر یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایسے گھروں کی نوے فیصد بیٹیاں یا تو غیر آباد ہوئیں یا زندگی بھر عدم اطمینان میں گزار گئیں۔

میں نے ایسے مرد بھی دیکھے جو اپنی پوری طاقت، اپنی عزت اور اپنی برداشت صرف اس لیے قربان کرتے رہے کہ گھر بچ جائے، بچے بکھرنے سے بچ جائیں۔ مگر بدقسمتی سے اکثر عورتوں نے ایسے مردوں کی نرمی کو کمزوری سمجھا، اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ وہ سمجھ نہ سکیں کہ شوہر کا ضبط اس کی محبت کی علامت ہے، اس کی بزدلی نہیں۔

رشتے اس وقت کمزور ہوتے ہیں جب احساس، قربت اور گفتگو ختم ہو جائے۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کو سننا چھوڑ دیں، جب باتوں کی جگہ شکایتیں لے لیں، جب نرمی کی جگہ طنز آ جائے۔ معمولی باتیں جنہیں خاموشی سے حل کیا جا سکتا ہے، انا اور ضد کی نذر ہو جاتی ہیں۔ اور پھر ایک لمحہ آتا ہے جب رشتہ ظاہراً قائم رہتا ہے مگر دلوں میں ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔

اکثر ایسا بھی دیکھا گیا کہ شوہر کسی غصے یا مایوسی کے عالم میں طلاق کا لفظ زبان پر لے آتا ہے، اور بیوی یا اس کے والدین اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض دھمکی ہے۔ مگر حقیقت میں وہ لمحہ ایک خطرے کی گھنٹی ہوتا ہے۔ایسے موقع پر اگر لڑکی کے والدین تک یہ بات پہنچ جائے تو سمجھدار باپ وہی ہوتا ہے جو بیٹی کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ تمہیں ہی دھمکی کیوں ملی اگر سالوں گزر گے تو سالوں بعد دھمکی کیوں ملی باپ سوال کرے کہ سینکڑوں مواقع پر داماد نے بیٹا بن کر دکھایا پھر ایسا کیا ہوا کہ جس بیوی کی وجہ سے ساس سسر کو بیٹا بن کر دکھایا رہا آج اسی بیوی کو چھوڑنے کی دھمکی دینے پر مجبور ہو گیا

یہاں سب سے بڑا جھوٹ ساس سسر کا ہوتا ہے کہ داماد بھی بیٹا ہے ان کا حالانکہ جب بھی بیٹی اپنے آنسو دکھائے تو یہی ساس سسر اس بیٹے کو پل بھر میں داماد بنا دیتے ہیں

یقین کریں لاکھوں میں کوئی ایک آدھا کیس ہی ایسا دیکھا ہو گا جس میں حقیقیت میں ساس سسر کے اپنے داماد کو بیٹا بنا کر دکھایا ہو ورنہ باپ بیٹی سے سوال کرنے کے بجائے اس کے سوالوں کے جواب ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے اور اسے اس میں ہمیشہ داماد ہی غلط نظر آتا ہے اور پھر اس کی بیٹی طلاق یافتہ ہو جاتی ہے

 اگر اس موقع پر سنجیدگی، محبت اور بات چیت سے معاملہ سنبھال لیا جائے تو شاید رشتہ بچ جائے۔ لیکن جب اسے ہنسی میں اڑا دیا جائے تو وہی بات کل فیصلہ بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

> “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ”

مرد عورتوں پر نگران و ذمہ دار ہیں۔ (النساء: 34)

یہ برتری کا نہیں بلکہ ذمہ داری کا اعلان ہے۔ مرد کو قوام اس لیے بنایا گیا کہ وہ تحفظ، عدل اور محبت کے ساتھ گھر کو سنبھالے۔ عورت کو فرمایا گیا کہ وہ شوہر کے احترام کو لازم جانے، کیونکہ اسی سے گھر کا سکون جڑا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> “اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے سجدہ کرے۔”

(سنن ابی داؤد)

یہ الفاظ مرد کی خدائی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور عورت کے احترام کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو عزت دی، مگر ساتھ یہ بھی سکھایا کہ رشتہ تبھی مضبوط رہتا ہے جب دونوں اپنی حدوں کو سمجھیں، اپنے فرائض ادا کریں، اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔

ہم نے آگ اقوال زریں کو محفوظ ریلیز تک۔محدود کر لیا ہے اور بد قسمتی سے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں اپنے مطلب کی چیز ہی اچھی لگتی ہے

طلاق کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایک نئے المیے کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد عورت کو پچھتاوا، مرد کو خالی پن، اور بچوں کو احساسِ محرومی گھیر لیتا ہے۔ اس لیے اگر زندگی میں کبھی اختلاف ہو بھی جائے تو اس کا حل برداشت، گفت و شنید اور قربت میں تلاش کریں، طلاق میں نہیں۔ کبھی کبھی ایک قدم پیچھے ہٹ جانا کمزوری نہیں ہوتا، بلکہ وہ عظمت ہوتی ہے جو نسلوں کو بکھرنے سے بچا لیتی ہے۔

رشتے معافی سے جیتے ہیں، بحث سے نہیں۔ احساس سے بچتے ہیں، ضد سے نہیں۔ اور جو لوگ اپنی انا کو مار کر رشتے بچاتے ہیں، دراصل وہی زندگی جیت جاتے ہیں۔

اور جس عورت نے خاوند کی پہلی بار طلاق کی دھمکی کے بعد اسے سنا ان سنا کیا ہو وہ عورت کبھی اپنا گھر آباد نہ کر پائی اور حقیقیت میں مرد کو بھی ایسی عورت سے کنارہ کشی وقت سے پہلے کرنی چاہے جو عورت احسان فراموش ہو جس عورت کی زبان مجازی خدا  سے اونچی ہو۔ جس عورت کے والدین خاوند کی شکایت پر بیٹی کا ساتھ دیں ایسی عورت بیس پچیس پچاس سال بعد طلاق لے کر ہی رہتی ہے یقین کریں کچہری میں جب بھی سنتے دیکھتے ہیں کہ شادی کے پچیس سال بعد طلاق تیس سال بعد طلاق سولہ سال بعد طلاق ہوئی تو ایسے ہر کیس میں قصور وار غلطی بیوی کی ہی نکلی ہاں مردوں کو بالکل بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن مرد اگر زیادتی کرے تو عورت شادی کا سال بھی مشکل سے نکالتی ہے ہمیشہ مرد کی ہی کوشش ہوتی ہے کہ گھر آباد رہے

اللہ پاک ہمارے معاشرے سے طلاق جیسی اس لعنت کو کم کرنے سے اسباب پیدا کرے آمین

از قلم احسن وحید

19/10/2025

Loading