Daily Roshni News

۔۔۔۔۔ عورت اور ماں ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت اور ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میری ایک پوسٹ پر سوال آیا کہ آپ ہر سماجی پہلو پر لکھتے ہوئے کسی ایسے واقعہ کی مثال کیوں دیتی ہیں جو آپ کے ہی ارد گرد کسی پر گزرا ہو۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر واقعہ کی آپ خود بھی گواہ ہوں ۔

تو میرا جواب یہ ہے کہ ایک تو میری عمر جو تقریباً نصف صدی دیکھ چکی ، اور عمر بھی وہ جو ، سن اسی کی دہائ سے شروع ہوئ جب دنیا ہی کچھ اور تھی ۔

پھر دوسری وجہ بڑا خاندان ، اور تیسری وجہ گلی محلہ کی رہائش جہاں کہانیاں ہی کہانیاں بکھری ہوتی ہیں۔۔۔۔

آج بھی جس موضوع  لکھنے لگی ہوں ۔ ایک واقعے ہی نے اس طرف دھیان دلوایا ہے ۔۔۔

ایک قریبی عزیزہ کے بھائ کو کینسر ہوا۔۔ پانچ سالہ شادی شدہ ہیں ۔ اولاد کوئ نہیں ہے ۔

شریف اور مسکین سے انسان ۔۔ گزر اوقات مشکل سے ہوتی ہے۔  سائیکل چلاتے ہیں اور کلرکی کرتے ہیں۔

گھر گروی پر ہے ۔ بھائ بہن سب شادی شدہ۔ ماں باپ حیات نہیں  ۔ اکیلا لڑکا دیکھ کر کچھ خوشحال لوگوں نے اپنی بیٹی کی شادی اس کر دی ۔

زندگی ٹھیک چل رہی تھی کہ درمیان میں یہ کینسر کمبخت آگیا ۔۔

شوکت خانم میں علاج ہوا۔ پیٹ کا ایک بڑا آپریشن ہوا جس میں پیٹ کے سب چیزیں ہی افیکٹ ہوئیں۔۔۔

بہرحال زندگی بچ گئ۔  اب سائیکل چلانے کی ہمت ہی نہیں ۔ نوکری سے تو چھٹیاں مل گئیں لیکن گھر چلانا مشکل ہوگیا ۔۔۔

سال بھر گزرا تو اطلاع ملی کہ اس کی بیوی نے خلع لے لی ہے ۔۔

وجہ کچھ نا بتائ ۔ بس یہی کہا کہ اب میں ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ۔۔۔

پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔  وہ بد کردار ثابت کر دی گئ ۔۔ ایک عدد نادیدہ کزن بھی پیدا کر لیا گیا جس سے شادی کے چکر میں اس نے بیمار شوہر کو چھوڑ دیا۔۔۔

یہاں لوگ بڑی بڑی فلسفیانہ باتیں کرتے ہیں کہ طلاق یا خلع کے وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی نا کی جائے یا جو بھی سچ ہو بھی نا بتایا جائے اور عزت سے الگ ہوا جائے۔۔۔۔

ایلیٹ کلاس میں یہ سب چل جاتا ہوگا ۔۔

ہمارے معاشرے میں اگر بیوی وجہ نا بتائے کہ شوہر کو کیوں چھوڑا ہے تو وہ ہر صورت بد کردار ثابت ہوتی ہے۔

اب یہ عورت کچھ بتا کر نا گئ تو سب نے کہاکہ کزن کی وجہ سے بیمار شوہر سے بے وفائ کر گئ ۔۔۔

جبکہ ہم اندر کی بات جانتے ہیں۔ ۔  وہ بیمار شوہر اب مزید ازدواجی تعلقات کے قابل نا رہ گیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی بھی کوئ امید نا تھی ۔۔۔۔  جبکہ شادی کو ابھی کچھ سال ہی ہوئے تھے اور بیوی کم عمر تھی ۔

اسی لیے وہ عورت جو اپنی ممتا کو قرار دینا چاہتی تھیں۔ اسے چھوڑ گئ کہ دوسری شادی کرکے اولاد پیدا کر سکے اور ازدواجی زندگی کا سکھ پا سکے ۔۔

اب یہاں لوگ یہ سوال کریں گی کہ کیا گارنٹی ہے کہ دوسری شادی سے اولاد مل جائے گی یا دوسرا شوہر بیمار نہیں ہوگا۔۔۔

تو میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب ایک مرد کی دوسری شادی کرواتے ہوئے کیوں نہیں سوچا جاتا ۔۔۔

بیوی بانجھ ہو تو شوہر کا حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے۔۔

بلکہ لوگ ایسے مرد کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور بیوی کو صبر کا سبق پڑھاتے ہیں ۔

وہاں یہ کوئ کیوں نہیں کہتا کہ اسکی کیا گارنٹی ہے کہ دوسری بیوی سے بھی اولاد ہو جائے گی ۔۔

پھر جن کے یہاں صرف بیٹیاں ہوتی ہیں تو کچھ بد بخت مرد ان کو اولاد ہی نہیں سمجھتے اور بیٹے کے لیے دوسرے شادی ببانگ دہل کرتے ہیں ۔۔۔

اس کے علاؤہ اگر بیوی بیمار ہو ۔۔ تب بھی شوہر دوسرے شادی کرتے پائے جاتے ہیں کہ یہ ہمارے حقوق پورے نہیں کرسکتی تو ہمیں دوسری شادی کا حق ہے ۔۔۔

پھر اگر یہی سب ایک عورت کرے تو وہ بد کردار کیوں ؟؟؟؟

عورت کو بیک وقت زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں تو ظاہر ہے وہ پہلے شوہر سے طلاق یا خلع ہی لے گی نا۔۔

شوہر اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت چن کر اس سے شادی کر سکتا ہے۔ تو بیوی اپنے لیے دوسرا شوہر کیوں نہیں چن سکتی۔

اگر اس کو کوئ اچھا شخص سہارا دینے کو  تیار ہے تو اس عورت کو بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنی نئ زندگی شروع کرے۔   اگر کوئ دوسرا شخص نہیں بھی ہے تو بھی وہ پہلے شوہر کو چھوڑنے کا پورا حق رکھتی ہے ۔

اگر وہ بیمار شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے  تو یہ اس کا حسن اخلاق اور احسان ہے۔

اور یہاں ایسی عورتوں کی کمی نہیں جو اپنے مردوں کا پردہ رکھ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔

مرتے دم تک وفا نبھاتی ہیں۔

انہی میں سے ایک عورت اگر اپنے حق کے لیے کھڑی ہوگئی تو وہ بد کردار کیوں ۔۔۔

ماں بننے کا حق پر عورت کو ہے ۔۔

 اب اس مرد کے بہن بھائ سب ہر جگہ یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھر رہے ہیں کہ غیر مرد کے لئے ہمارے بیمار بھائ کو چھوڑ گئ۔

مطلب وہ کم عمر لڑکی ساری زندگی ایک بیمار شوہر کی خدمت میں گزار دیتی بنا اولاد کی خواہش کئے تو ہی کردار والی ثابت ہوت۔۔ بعد میں کیا یہ لوگ اس کا بت بنا کر اسکو  پوجتے۔

تب بھی یہی شکایت ہوتی کہ ہمارے بھائ کی اچھے سے خدمت نا کی ۔۔۔

میں نے یہی باتیں ہر اس شخص سے کی ہیں جس نے بھی اس عورت کو بد کردار کہا۔۔ پھر میری باتوں کا کسی کے پاس جواب نا تھا ۔۔۔ لوگ سمجھ سکتے ہیں اگر انہیں کوئی سمجھائے تو۔۔۔۔

پرانے ٹیبوز توڑنے کا وقت آگیا ہے۔  بات کیا کریں۔  بات سنا کریں۔۔۔

ضروری نہیں جو سالوں سے ہوتا آرہا ہے وہ اب بھی ہو۔۔

سوچ بدلیں۔ زندگی بدلیں۔

عنبرین خان ✍🏻

Loading