غزل
کم ظرفی سے آ لودہ یہ ، افکار کے پتھر
مارے ہیں اس نے ا پنے ہی ، معیار کے پتھر
لاؤ ، کہیں سے توڑ کے ، کوہسار کے پتھر
مارو نہ مجھے یارو یہ ، بازار کے پتھر
کھا لوں گا، بڑے شوق سے، اغیار کے پتھر
کھانا، بڑا مشکل ہے مگر، یار کے پتھر
غیروں نے دور سے ہی، اپنوں نے مگر یار
مارے ہیں، مُجھے، سر پہ میرے ، وار کے پتھر
ہم سر پہ سجا لیتے ہیں، اک تاج سمجھ کے
لگتے ہیں پھولوں جیسے ، ستم گار کے پتھر
بھر دو کبھی تو میرا یہ کشکول تمنا
ہر بار نہ، مارو مجھے ، انکار کے پتھر
گلدستہ ء الفت میں، یوں خود کو پرو لو
جیسے کھڑے ہیں جڑ کے یہ ، دیوار کے پتھر
اک بات ہی سے، یارو ، مر جاتا ہے انسان
انسان کو مارو نہ، یہ، بیکار کے پتھر
ناصر ، تو گفتگو میں، لہجے کو نرم رکھ
مارو نہ کبھی، تلخئی ء اظہار کے پتھر
ناصر نظامی گولڈ میڈلسٹ
ایمسٹرڈیم ہالینڈ
![]()

