۔۔۔۔۔ یادگار غزل ۔۔۔۔۔
شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قتیل شفائی
نامہ بر اپنا ۔ہواؤں کو بنانے والے
نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے
کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
میکدے بند ہوئے ڈھونڈ رہا ہوں تجھ کو
تو کہاں ہے مجھے انکھوں سے پلانے والے
کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یہ مصور تیری تصویر بنانے والے
تو اس انداز میں کچھ اور حسیں لگتا ہے
مجھ سے منہ پھیر کے غزلیں میری گانے والے
چھت بنا دیتے ہیں اب ریت کی دیواروں پر
کتنے غافل ہیں نئے شہر بسانے والے
سب نے پہنا ہے بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جتنے بھی لوگ ہیں بارش میں نہانے والے
کس کو ہو گی یہاں توفیق انا میرے بعد
خود ہی سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے والے
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے خاک میں دنیا کو جگانے والے
در و دیوار پہ حسرت سی برستی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
قتیل شفائی