Daily Roshni News

۔۔ سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر۱

سلسلہ عظیمیہ

اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی )خاتم النبین رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بعد نوع انسانی کی رشد و ہدایت اور اصلاح و تربیت و تعلیم کی ذمہ داری امت محمدی کے ارکان پر ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ کے علوم کے وارث اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام نے جو مسائی فرمائیں وہ تاریخ کا روشن اور زریں حصہ ہیں۔ دور حاضر میں سلسلہ عظیمیہ بھی صوفیائے کرام کی انہی کوششوں کا ایک تسلسل ہے۔ وقار یوسف عظیمی نے “سلسلہ عظیمیہ اور اس کی علمی وسماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا، اس مقالے پر انہیں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ یہ مقالہ | کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ قارئین کرام کی دیرینہ فرمائش پر اس تحقیقی مقالہ کا خلاصہ روحانی ڈائجسٹ میں قسط وار پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے یہ مقالہ سلسلہ عظیمیہ کے پیغام اور تعلیمات کو کھنے کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کے مشن کی تفہیم میں بھی معاون ہو گا۔ یہ مقالہ مقدمہ اور کچھ ابواب پر

گزشتہ سے پیوسته

چھٹی اور ساتویں ہجری کے اہل باطن :ان دونوں صدیوں میں روحانیت کا نئے انداز سے احیاء ہوا۔ اس دور کے صوفیانہ اقدار کا جائزہ امام عظیمیه قلندر بابا اولیات نے اس طرح بیان فرمایا ہے شیخ نجم الدین اور ان کے شاگرد مثلا شیخ شہاب سیر وردی ، خواجہ معین الدین چشتی ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب نوافل کے ذریعے وصول الی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اختراعات کہیں اور طرح طرح کے اذکار و اشغال کی ابتداء کی۔ یہ چیزیں شیخ حسن بصری کے دور میں نہیں ملتیں۔ “ [126]

چھٹی صدی ہجری کے عظیم روحانی بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی (470-561ھ) ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی کے مقالات پر مبنی کتاب “فتوح الغيب” میں آپ کی نصیحتیں جمع کی گئی ہیں۔ اس کتاب سے ایک اقتباس پیش ہے جس میں ایک اللہ والے اور عام بندے کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے۔

بندۂ نفس تو عاشقان حق اور پرستاران معبود واحد کی یگانگت اور ہم پائیگی کادعولی مت کر اس لئے کہ تو اپنی ہوا و ہوس کا غلام ہے اور وہ اپنے خالق و مولی کے غلام ہیں۔ تو دنیا کی رغبت میں تھو ہو رہا ہے اور وہ ہمہ وقت رغبت عقبی میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ زمین و آسمان کے پروردگار پر نظر گاڑے ہوئے ہیں اور شوق و تماشا اور انس و محبت کا

مرکز مخلوقات ہے۔ ان لوگوں کے قلوب صرف رب واحد سے وابستہ ہیں اور تیرا قلب اصنام دنیوی سے بت کدہ بنا رہا ہے ۔ وہ اشیائے کائنات کو نہیں بلکہ اشیاء کے خالق وصانع کو دیکھتے ہیں، جسے ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ چشم قلب سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے عشق حقیقی کی نعمت پا کر غیر اللہ سے نجات حاصل کی اور تواب تک نفس کی خواہشات میں مخمور ہے۔ ووائل اللہ اپنے پروردگار کے ارادوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے ارادوں اور آرزوؤں کو چھوڑ بیٹھے اور قرب الہی حاصل کیا لیکن تو اپنے ارادوں اور خواہشوں کا بندہ بن کر اپنے خالق سے کوسوں دور جا پڑار ان لوگوں کو اللہ تعالٰی نے تخلیق آدم اور تخلیق کائنات کا حقیقی مقصد عطا فرمایا لیکن تو دنیا کی اغویات

میں محمود مصروف ہے۔” [127]

اس صدی ہجری کی ایک اور سر بر آوردہ روحانی شخصیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی (0536 633) کی ہے۔ آپ نے ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے پلیٹ فارم سے توحید کی ایسی شمع روشن کی جو سینکڑوں سال گزر جانے کے باوجود اپنی روشنی سے ایک عالم کو منور کر رہی ہے۔

آپ عارف حق بندہ کی خصوصیات بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:

عارف ہمیشہ عشق کے ولولہ میں رہتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت و تخلیق میں حیران رہتا ہے۔ اگر وہ کھڑا ہے تو اس حالت میں بھی اپنے محبوب حقیقی کے خیال ہی میں ہوتا ہے اگر وہ بیٹھا ہے تو پھر بھی اپنے دوست کے ذکر میں ہوتا ہے۔ اگر وہ سویا ہوا ہو تب بھی اپنے دوست کے خیال میں ہوتا ہے اور بیداری کی حالت میں ہو تب بھی دوست کے حجاب عظمت کے ارد گرد طواف کرتارہتا ہے۔“ [128] چھٹی صدی کے ایک بلند پایہ روحانی بزرگ حضرت ابو نجیب ابو القاہر سہر وردی 2690 563ھ) ہیں۔ آپ اپنے عہد شباب میں بغداد چلے گئے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور امام غزالی سے

ملا قا نہیں رہیں۔ آپ کے روحانی مشن کو شیخ شہاب الدین سہر وردی نے آگے بڑھایا۔

حضرت نجم الدین کبری (504ھ ۔ 618ھ) نے بھی چھٹی صدی ہجری کو رونق بخشی۔ [129] مرد قلندر حضرت لعل شہباز قلندز (560 650ھ) نے اپنے عارفانہ نور سے چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے وسط میں سرزمین سندھ کو توحید کے نور سے منور کیا۔ آپ کی پیدائش صوبہ ہرات میں مروند کے مقام پر ہوئی۔ اصل نام سید محمد عثمان

مروندی تھا۔ [130]

ساتویں صدی ہجری، اللہ کے دوستوں سے بھری پڑی ہے۔ اس صدی کے اولیاء اللہ میں ایک

نام مولانا جلال الدین رومی ( 2604 – 672ھ) کا

ہے۔ [131]

  1. 1. حضرت فرید الدین عطار (513ھ – 627 )

2.بہاؤ الدین زکریا ( 0578-661ھ)

3 قطب الدین بختیار کاکی (0583-633ھ)،

4بابا فرید گنج شکر (0584-0659)

5 علی احمد صابری کلیری (وصال 690ھ)

6 نظام الدین اولیان ( 0631 – 725ھ)

7 محی الدین ابن عربی (560-2638) نے بھی اس صدی کو رونق بخشی۔ آٹھویں، نویں اور دسویں صدی کے اولیائے کرام :

آٹھویں اور نویں صدی میں بھی بہت سے اولیائے کرام گزرے، جن میں سے چند یہ ہیں:

بو علی شاہ قلند ر (2602 – 725)

  1. 2. نصیر الدین چراغ دہلوی (2675 – 755ھ) بندہ نواز گیسو دراز (021 – 825ھ)

حافظ شیرازی (0729 – 791ھ) 5 شاہ رکن عالم ( وصال 735هـ ) زین الدین خراسانی (757ھ – 2838) عبد الرحمن جامی (0817-2898) عبد القدوس گنگوی ( 861ھ – 945ھ)، و شاه نعمت الله ولی (0725 – 820) 10- عبد الکریم جیلی ( 0767-2805) 11 خواجہ باقی بالله (1971-01012) 12 مجدد الف ثانی (2971-1034 )

کیاں ہورہی اور بارہویں صدی ہجری کے صوفی بزرگ :

ان صدیوں کے نمایاں صوفیائے کرام یہ ہیں: 1 شیخ عبد الحق محدث دہلوی (0958-1052هـ)

2 بابا بلھے شاہ (1091ھ – 1181ھ) بری امام (01026 – 1117ھ) 4 میاں میر (0938-1045ھ)، 5. شاہ عبد الطیف بھٹائی (1165ھ) کچل سرمست (01152-1242ھ) 7. شاہ ولی اللہ دہلوی (01114 – 1176ھ) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی” چهار شنبه 4 شوال 1114ھ کو پیدا ہوئے ۔ سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقی سے ملتا ہے۔

روایات کے مطابق پیدائش سے پہلے ہی والد کو خواب میں پیدائش کی بشارت ہو چکی تھی۔ شاہ صاحب حدیث، فقہ، تصوف، فلسفہ اور دیگر شرعی علوم میں گہری معلومات رکھتے تھے۔ خصوصا تصوف کے متعلق آپ نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اپنے رسالہ ” الانتباه في سلاسل اولیاء اللہ ” میں کئی سلاسل طریقت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اس رسالے کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں

واضح رہے کہ امت محمدیہ کوجو نعمتیں عطا کئی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف سلسلوں کے ذریعے اس کا ربط آنحضور سی ایم کے ساتھ صحیح اور ثابت ہے اگر چہ معتقد مین اور متاثرین کے درمیان بعض امور میں اختلاف ہوئے ہیں۔” [132]۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2017

Loading