Daily Roshni News

۔📸 شادی کا نام محبت یا بےحیائی؟۔۔۔تحریر۔۔۔ پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

📸 شادی کا نام محبت یا بےحیائی؟

✍️ تحریر: پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ تحریر۔۔۔ پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری))جب شادی جیسا مقدس رشتہ بےحیائی کا اشتہار بن جائے، جب نکاح کی تقریب “فیشن شو” اور “فوٹو شوٹ” میں بدل جائے، تو پھر یاد رکھو! ہم صرف ایک نئی نسل کو نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کو دفن کر رہے ہوتے ہیں۔

آج کل پاکستان میں شادیاں “محبت اور عزت” سے زیادہ “لوکس اور لائکس” کا میدان بن چکی ہیں۔ دلہن کا لباس کسی فلمی اداکارہ جیسا، اور دلہا کی انٹری ایسے جیسے کسی ڈرامے کا ہیرو! اور فوٹوگرافرز؟ وہ اب صرف تصویریں نہیں لیتے، پوری فلمیں بناتے ہیں… وہ بھی ایسی کہ شرم آنکھوں میں نہیں، دل میں اتر جائے۔

🔞 آپ خود اس تصویر کو دیکھیں! دلہن فرش پر لیٹی ہوئی ہے اور فوٹوگرافر عین اس کے اوپر کھڑا ہو کر زاویے تلاش کر رہا ہے۔ نہ حیا، نہ پردہ، نہ غیرت! یہ کون سی تہذیب ہے؟ یہ کون سا فیشن ہے جس میں لڑکیوں کو دلہن بنا کر لیٹا دیا جاتا ہے جیسے کوئی شوپیس ہو؟ کیا یہی ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے؟ کیا اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ “دوسروں کی بیٹیوں کو سب کے سامنے لیٹا کر شوٹ کیا جائے؟”

🚫 ایک ویڈیو میں تو حد ہی کر دی گئی! دلہا اور دلہن کو فوٹوگرافر نے خود “لِپ کِس” کروایا تاکہ “کیپچر پرفیکٹ” ہو! اور پیچھے پورا خاندان تماشائی بنا بیٹھا تھا جیسے یہ سب عام بات ہو۔

🕌 کیا اسلام اجازت دیتا ہے؟

اسلام میں نکاح ایک مقدس عبادت ہے۔ اس میں شرم و حیا، سادگی اور وقار ہوتا ہے۔ صحابہ کرام کے نکاح ہوں یا نبی ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا ولیمہ… کیا کبھی ایسا انداز، ایسا شو آف یا ایسی بےحیائی دیکھی؟ کبھی نہیں!

اسلام ہمیں حیا سکھاتا ہے۔ پردہ، تمیز، وقار، عزت… یہ سب اسلامی تہذیب کے ستون ہیں۔ مگر آج کی “انسٹاگرام والی نسل” ان سب کو روند کر شادی کے نام پر “ماڈلنگ” کر رہی ہے۔

تحریر: پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

💔 شادی کے نام پر “چُما چاٹی شو”!

جب نکاح کا مقدس بندھن سوشل میڈیا کا “کانٹینٹ” بن جائے، تو سمجھ لو کہ ہم تباہی کے کنارے کھڑے ہیں۔ آج کل پاکستان میں نکاح صرف دستخط کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل “چُما چاٹی شو” بن چکا ہے۔ دلہا کبھی دلہن کو گال پر چوم رہا ہوتا ہے، کبھی بازو میں لپیٹ کر کیمرے کی طرف مسکرا رہا ہوتا ہے، تو کبھی فوٹوگرافر کے کہنے پر اس کے چہرے پر “لپ کِس” کر رہا ہوتا ہے — اور یہ سب کچھ خاندان کے بیچوں بیچ، والدین اور رشتہ داروں کی موجودگی میں ہو رہا ہوتا ہے۔

فوٹوگرافر اب صرف تصویریں نہیں لیتے، بلکہ ان کا کام بن چکا ہے “بے حیائی کے سین” ڈائریکٹ کرنا۔ انہیں اندازے لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی، دلہا دلہن خود خوشی خوشی وہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو کل تک پردے کے پیچھے ہوتا تھا۔ اور پھر ان “رومانوی مناظر” کو انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر ڈال کر فخر سے کہا جاتا ہے: “یہ ہماری شادی کی ہائی لائٹس ہیں!”

شادی کا ہال اب عبادت کا مقام نہیں رہا، یہ ایک “لائٹس، کیمرہ، ایکشن!” والا سٹیج بن چکا ہے۔ نکاح کی برکت، سنتِ نبویؐ کی سادگی، اور حیا کی روشنی کہیں کھو چکی ہے۔ اب صرف مہنگے ملبوسات، ماڈلنگ جیسا فوٹو شوٹ اور جسمانی قربت کی کھلی نمائش بچی ہے۔

ایسے لگتا ہے جیسے یہ نکاح کی تقریب نہیں، بلکہ کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو — اور سب دیکھنے والے تالیاں بجا کر داد دے رہے ہوں جیسے یہ کوئی قابلِ فخر کارنامہ ہو۔

📢 کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں کتنا ناپسندیدہ عمل ہے؟ کیا نکاح کے نام پر یہ فحاشی، بے غیرتی، اور دکھاوا ہماری دنیا و آخرت دونوں کو برباد نہیں کر رہا؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال خود سے کریں:

“کیا ہم اپنی بیٹیوں کی شادیاں ایسے کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ نکاح کی رات سوشل میڈیا پر ‘چُما چاتی’ کے سین وائرل ہوں؟”

اگر جواب “نہیں” ہے، تو پھر ہمیں اب کھڑا ہونا ہو گا۔ حیا کو زندہ کرنا ہو گا۔ نکاح کو دوبارہ عبادت بنانا ہو گا، نہ کہ شو آف!

تحریر: پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

⚠️ اب وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں!

یہ تصویر، یہ ویڈیوز، یہ رسومات… ہماری قوم کو کہاں لے جا رہی ہیں؟ نوجوان نسل کو کیا سکھایا جا رہا ہے؟ کہ نکاح اب عبادت نہیں، بلکہ “ٹرینڈ” ہے؟ شادی اب سنت نہیں، “شوٹنگ لوکیشن” ہے؟

اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو کل ہماری بیٹیاں اور بہوئیں بھی یہی سب کچھ کرتی نظر آئیں گی… اور ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے۔

✊ اب کچھ کرنا ہو گا!

🔹 علماء کو بولنا ہو گا

🔹 والدین کو سمجھنا ہو گا

🔹 نوجوانوں کو رکنا ہو گا

🔹 معاشرے کو جاگنا ہو گا

ورنہ شادیاں عبادت کے بجائے فحاشی کا اڈہ بن جائیں گی اور ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے۔

🔥تحریر: پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

Loading