شکوہ اور شُکر
تحریر۔۔۔جاوید چوہدری
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔۔ شکوہ اور شکر۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید چوہدری) میری درخواست ہے آپ جب بھی شکوہ کرنے لگیں آپ فورا سجدہ کریں اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کریں شکر شکوے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
میں آپ کو تین لوگوں کی کہانی سناتاہوں، یہ تینوں مختلف شہروں میں رہتےتھے، تینوںمیرے جاننے والےتھے اور ان تینوں کی کہانی ایک دوسرےسے جڑی ہوئی تھی۔
پہلا شخص نام تھا، نام بہت خوبصورت تھا، سرخ وسپید رنگ، لمبا قد، بال ریشمی اور نین نقش تیکھے ، ٹام کی آواز بھی نشیلی تھی، وہ بولتا تھا تو کان کی دیواریں سرور میں آجاتی تھیں، پورے شہر میں اس جیسا کوئی دوسرا خو بصورت نوجوان نہیں تھا، وہ جس محلے سے گزرتا تھا، لڑکیاں دوڑ کر چھتوں پر آجاتی تھیں اور اسے اس وقت تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتی تھیں جب تک وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا، حسن میں ہزار خوبیاں ہوتی ہیں بس ) اس میں صرف ایک خامی، ایک خرابی ہوتی ہے، اس کے دشمن بہت ہوتے ہیں۔ محلے کا ہر کو جا شخص اس کا مخالف ہو جاتا ہے، نام کے مخالفین کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی، وہ جہاں جاب کرتا تھا مالک چند دن بعد جیلس ہو کر اسے نکال دیتا تھا ،وہ اسکول میں تھا تو وہ سب سے زیادہ پٹتا تھا، وہ کالج گیا تو استاد جان بوجھ کر اس کے نمبر کم کر دیتے تھے، درزی اس کے سوٹ خراب کر دیتے تھے اور دھوبی اس کے کپڑے جلا دیتا تھا، ٹام کے حسن سے صرف اس کا محلہ اس کا شہر نہیں جاتا تھا بلکہ اس کا اپنا خاندان بھی اس سے ٹھیک ٹھاک حسد کرتا تھا، اس کا والد ، اس کے بھائی اور اس کے کزن تمام لوگ اس کے حاسد تھے۔ نام اس رویے سے تنگ تھا، وہ اکثر اللہ تعالٰی سے شکوہ کرتا تھا یا باری تعالیٰ تم نے مجھے اتنا خوبصورت کیوں بنا دیا ….؟ تم مجھے عام انسان بنا دیتے، تم مجھے بدصورت کر دیتے تو میں بھی آج اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح مطمئن زندگی گزار رہا ہوتا، وہ بعض اوقات لوگوں کے رویئے سے اتنا زیادہ تنگ آ جاتا تھا کہ اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا کرتا یا باری تعالیٰ تو مجھے ان حاسدین سے نجات ولا دے مجھے ان سے بچالے میں ان لوگوں سے بہت تنگ ہوں، یہ مجھے اندر سے زخمی کر رہے ہیں، یا اللہ مجھے حاسدین کے ان زخموں سے بچالے“ وہ گڑ گڑاتا رہتا تھا اور یہ دعا کر تا رہتا تھا۔ اللہ نے ایک دن اس کی دعا سن لی اور نام کے سارے حاسدین کی نظریں پھر گئیں ، لوگوں نے اس سے جیلس ہونا بند کر دیا اور وہ عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگا لیکن وہ عام انسانوں کی زندگی زیادہ دن برداشت نہ کر سکا، وہ ایک دن ٹرین کی پٹڑی پر لیٹا اور زندگی کی سرحد پار کر گیا۔ نام اس انجام تک کیسے پہنچا … ؟ ہم یہ ڈسکس کرنے سے قبل ڈک کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔ ڈک ایک پیدائشی خوش نصیب شخص تھا، وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو خاندان کے حالات بدل گئے ، باپ ریڑھی سے دکان پر آگیا، وہ پیدا ہوا تو دکان مال اور گاہکوں سے بھر گئی، وہ قدموں پر کھڑا ہوا تو ایک دکان دس دکانوں میں تبدیل ہو گئی اور وہ اسکول گیا تو والد کار خانے دار ہو گیا گویا ڈک جوں جوں بڑا ہوتا گیا والدین آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے، وہ عملی زندگی میں بھی خوش نصیب تھا، وہ جس کلاس میں داخل ہو تا تھاوہ کلاس پورے اسکول میں آگے نکل جاتی تھی، وہ جس استاد سے پڑھتا تھا وہ استاد ” بیسٹ ٹیچر “ کا ایوارڈ لے جاتا تھا، وہ جو ” پرائز بانڈ لے لیتا تھاوہ پرائز بانڈ نکل آتا تھا، وہ خریداری کے لیے جس دکان میں داخل ہو جاتا تھا وہ دکان گاہکوں سے بھر جاتی تھی اور وہ جس شخص کو دوست بنا لیتا تھا اس دوست کے دن پھر جاتے تھے۔ ڈک جب عملی زندگی میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ کو “پارس” بنادیا، وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی، وہ فیکٹری میں بیٹھنے لگا تو فیکٹری کمپنی بن گئی اور اس کمپنی نے اسٹاک ایکس چینج میں ریکارڈ قائم کر دیا، وہ آنکھیں بند کر کے بھی جو سودا کر تا تھا وہ اس میں کروڑوں کما لیتا تھا، وہ جو زمین خرید لیتا تھا وہ زمین راتوں رات مہنگی ہو جاتی تھی، ڈک اس خوش نصیبی کو انجوائے کر رہا تھا لیکن پھر وہ بھی نام کی طرح مشکلات کا شکار ہو گیا۔ لوگ اس سے بھی جیلس ہو گئے، پورا شہر اس کے حسد میں مبتلا تھا، لوگ اسے دیکھ کر نفرت سے آنکھیں پھیر لیتے تھے، لوگ دوست بن کر اس کی پیٹھ میں خنجر پیوست کر دیتے تھے، اس کے لگے بھائیوں نے اس کے خلاف مقدمات قائم کر رکھے تھے ، وہ جس پر اعتماد کرتا تھا وہی اسے دھو کہ دے جاتا تھا، لوگ اس کی رقم، اس کی زمین جائیداد ہڑپ کر جاتے تھے۔ ڈک کو بھی نام کی طرح اس کی خوش نصیبی نے اداس کر دیا، وہ بھی دکھی ہو گیا اور وہ بھی کثرت سے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگا: یا باری تعالیٰ تم نے مجھے خوش نصیب کیوں بنایا، تو مجھے ان جیسا بنا دیتا تا کہ میں دنیا میں اکیلا نہ ہوتا، میں ان کے ساتھ رچ بس کر زندگی گزار سکتا وہ کثرت سے یہ شکوہ کرتا تھا۔ اللہ نے ایک دن ڈک کی دعا بھی سن لی، اس نے اس کی خوش نصیبی واپس لے لی، ڈک عام انسان بن گیا نو بجے سے پانچ بجے والا عام انسان۔ لوگوں نے اس سے بھی جیلس ہونا بند کر دیا، پورے شہر میں اب کوئی شخص اس کا حاسد نہیں تھا لوگ اب اس سے بھی محبت سے ملتے تھے لیکن وہ بھی زیادہ دنوں تک یہ محبت برداشت نہ کر سکا وہ ایک دن بیڈ روم میں گیا’ نیند کی گولیاں کھائیں’ بیڈ پر لیٹا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا وہ بھی خاموش داستانوں کا ایک نا معلوم کردار بن کر رہ گیا۔ ڈک بھی اس انجام تک کیسے پہنچا؟ ہم یہ ڈسکس۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017