Daily Roshni News

۔28؍اکتوبر 1932جاویدشاہینؔ صاحب کا یومِ ولادت۔۔۔

۔28؍اکتوبر 1932جاویدشاہینؔ صاحب کا یومِ ولادت۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز ادیب، مترجم اور شاعر جاوید_شاہینؔ صاحب“ کا یومِ ولادت….نام اختر_جاوید اور تخلص #شاہینؔ تھا۔

28؍اکتوبر 1932ء کو امرتسر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان نقلِ وطن کر کے پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں آباد ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں حصولِ تعلیم کے دوران نوجوان جاوید شاہین کو مظفر علی سید، حنیف رامے اور شہزاد احمد جیسے قلم کاروں اور دانشوروں کی صحبت نصیب ہوئی اور نظم و نثر کے بارے میں ان کے نوخیز ذہن کی خاصی تربیت ہوگئی۔

انھوں نے نظم کے میدان میں طبع آزمائی کی اور غزل کو محض ثانوی حیثیت دی۔ بعد میں وہ نثری نظم کے ایک اہم نمائندے اور علم بردار بن کر اُبھرے اور کار زارِ ادب میں کئی معرکوں کے مرکزی کردار بنے۔ سنہ ساٹھ کی دہائی میں ان کی شاعری کے تین مجموعے زخمِ مسلسل کی ہری شاخ، صبح سے ملاقات، محراب میں آنکھیں۔ اِن تین مجموعوں سمیت اُن کی کلیات میں شامل ہے جسے جاوید شاہین نے’نا تمام‘ کا معنی خیز عنوان دِیا۔

بائیس برس کی عمر میں ایک عجیب سودا جاوید شاہین کے سر میں سما گیا اور انھوں نے فِلمی ہیرو کے طور پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ لاہور کی فلم انڈسٹری ابھی تقسیم کے زخم چاٹ رہی تھی اور انور کمال پاشا کے سوا یہاں کوئی قابلِ ذکر فلم ساز موجود نہ تھا۔ شوکت حسین رضوی اور نورجہاں میں علیحدگی ہوچکی تھی اور میکلورڈ روڈ کے سنیما گھروں پہ بمبئی کی فلمیں چھائی ہوئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کسی کے لبوں پر دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند کا نام تھا۔ ایسے ماحول میں اگر خوبرو نوجوان جاوید شاہین نے بمبئی کا ارادہ کیا تو کچھ عجیب بات نہ تھی۔ بمبئی میں وہ ساحر لدھیانوی کے مہمان بنے اور وہاں کیفی اعظمی، شاہد لطیف، یش چوپڑا اور گرودت سے اُن کی ملاقاتیں بھی ہوئیں جن کا احوال جاوید شاہین کی خود نوشت’میرے ماہ و سال‘ میں موجود ہے۔ لیکن انھیں فلم میں کام نہ مِل سکا کیونکہ خوبرو نوجوان کی زبان میں لُکنت تھی۔

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:👇

ایک دیوار کی دوری (ناول)ہندو کش کے قبائل، گفتگو اور تقریر کا فن (ڈیل کارنیگی) ترجمہ، ناتمام (کلیات)، صبح سے ملاقات (شاعری)، میرے ماہ و سال (خود نوشت سوانح عمری)، زخم ِ مسلسل کی ہری شاخ (شاعری)، محراب میں آنکھیں (شاعری)، دیر سے نکلنے والا دن(شاعری)، ہوا کا وعدہ (شاعری)، نیکیوں سے خالی شہر (شاعری )،

جاوید شاہین 23؍اکتوبر 2008ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پا گئے اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

👈 #بحوالہ_ویکیپیڈیا

         ✨🌹  پیشکش : شمیم ریاض

                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑

💫🍁 معروف شاعر جاوید شاہینؔ کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫

زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد

میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی

سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد

کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں

کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد

مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب

رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد

کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں

جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد

زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں

وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد

چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں

جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد

ہیں نواح دل میں شاہینؔ کچھ نشیبی بستیاں

ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد

                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑

زخم کھانے سے یا کوئی دھوکہ کھانے سے ہوا

بات کیا تھی میں خفا جس پر زمانے سے ہوا

ایک پل میں اک جگہ سے اتنا روشن آسماں

کوئی تارہ بنتے بنتے ٹوٹ جانے سے ہوا

سوچتا رہتا ہوں میں اکثر کہ آغاز جہاں

دن بنانے سے کہ پہلے شب بنانے سے ہوا

میں غلط یا تم غلط تھے چھوڑو اب اس بات کو

ہونا تھا جو کچھ وہ جیسے اک بہانے سے ہوا

کچھ زمانے کی روش نے سخت مجھ کو کر دیا

اور کچھ بے درد میں اس کو بھلانے سے ہوا

بات ساری اصل میں یہ تھی میں اس سے بد گماں

اک تعلق میں کہیں پہ شک کے آنے سے ہوا

بچ ہی نکلا ہوں میں جاڑے کی بڑی یلغار سے

گرم اب کے گھر بدن کا خس جلانے سے ہوا

کیا کہوں میری گرفتاری کا کوئی اہتمام

کیسے زیر دام رکھے ایک دانے سے ہوا

عمر بھر کا یہ جو ہے شاہیںؔ خسارہ یہ مجھے

ایک سودے میں کوئی نیکی کمانے سے ہوا

                      🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑

ہے عجب شغل مرا رات کے ڈھل جانے تک

دیکھتا رہتا ہوں تارا کوئی جل جانے تک

پھر سلا دے گا اسے بحر کا اک گہرا سکوت

مستی ہے موج میں ساحل پہ مچل جانے تک

کیا ہوا اس کی گرہ میں ہے اگر اک دوری

میں بھی تو اس کا ہوں بس اس کے بدل جانے تک

پھر وہی میں مرا پھر ہوگا وہی کار جہاں

بات ساری ہے کسی غم کے بہل جانے تک

وہ ضرورت سے زیادہ ہی فراغت تھی کہ میں

جس میں پھرتا رہا حسرت کے نکل جانے تک

میرا اک عذر وہ سنتا رہا خاموشی سے

اور میں بیٹھا رہا برف پگھل جانے تک

روک رکھنی ہے کہیں ایک جگہ درد کی رات

کسی بیمار کی حالت کے سنبھل جانے تک

رزق مٹی کا مرا خوں نہیں بننے والا

صبح کے چہرے پہ غازہ کوئی مل جانے تک

عین ممکن ہے ٹھہر جائے کہیں آج کا دن

اور یہ ٹھہرا ہی رہے یوں ترے کل جانے تک

ایک آتش ہے کہ دہکائے ہوئے رکھتی ہے

کسی زنجیر کے حلقوں کے پگھل جانے تک

میں بھی شاہیںؔ اسے ملنے نہیں جانے والا

اس کے اندر سے کسی بل کے نکل جانے تک

👈 #بحوالہ_ریختہ_ڈاٹ_کام

                      💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠

            🌹 جاوید شاہینؔ 🌹

         ✍️ انتخاب : شمیم ریاض

Shameem Riyaz

Loading