360سال بعد
تحریر۔۔۔جاوید چوہدری
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔360سال بعد ۔۔۔ تحریر۔۔۔جوید چوہدری) فرانسس برنیئرFrancois Bernie ( 1620تا1688)پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا، یہ فرانس کا رہنے والا تھا. یہ 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔ یہ شاہ جہاں کے دور کے آخری دن تھے، برنیئر طبی ماہر تھا چنانچہ یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا، اسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اپنے صاحبزادے اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا، اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں داراشکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔اس نے دارالشکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا اور اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔
فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا، یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس میں شائع ہوا، یہ بعد ازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا، برطانیہ میں چھپا اور اس کے بعد آئوٹ آف پرنٹ ہو گیا، مجھے چند دن قبل فرانسیس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا، میں یہ کتاب پڑھ کر ورطہ حیرت میں چلا گیا ۔ کیونکہ فرانسیس برنیئر نے 1660ء میں جو ہندوستان (موجودہ پاکستان) دیکھا تھا وہ آج تک اسی اسپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے، ہم نے ساڑھے تین سو برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔
فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا، اس کا کہنا تھا، ہندوستان میں درمیانہ طبقہ (مڈل کلاس) سرے سے موجود نہیں، ملک میں امراء ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امراء محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا، وہ کہتا ہے، ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے،۔
بادشاہ سلامت، وزراء، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور ارسطو زمان اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں، بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامت کرامت کا ورد شروع کر دیتے ہیں،
لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا.لوگ غلطی کرکے اسے تسلیم نہیں کرتے . اگر غلطی بتائی جائے تو شرمندہ ہونے کی بجائے ہسنا شروع کر دیتے ہیں اور وضاحتوں سے غلطی کو درست ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں بازار بے ترتیب اور گندے ہیں آپ کو ایک دکان سے پشمینہ، کمخواب، ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ کی دکان پر تیل، گھی، آٹا اور شکر بک رہی ہو گی. آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی، ہر دکان کا اپنا ریٹ ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ کے دوران اکثر اوقات گاہک اور دکاندار ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں،
شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپ کو دکانوں پر گندگی،مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں، آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا، قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ یہ لوگوں کو گدھے اور کتے کا گوشت بھی کھلا دیتے ہیں، ہوٹلوں کا کھانا انتہائی ناقص اور مضر صحت ہوتا ہے لہٰذا لوگ ریستورانوں کی بجائے گھر پر کھانا کھانا پسند کرتے ہیں، پھل بہت مہنگے ہیں، ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے. سردہ بہت مہنگا ہے، میں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں، ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں،
شراب شیراز سے اسمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں۔ملک بھر میں جوتشیوں (نجومیوں) کی بھرمار ہے. یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اپنے مستقبل کا حال پوچھتے ہیں. ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا چنانچہ امراء اونٹ پر پانی لاد کر سفر کے لیے نکلتے ہیں، ہندوستان کی مٹی ذرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے‘۔
ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں،لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے‘ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے مگر فائدہ چھوٹے کسان۔۔۔جاری ہے۔