Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

صدائے جرس

ترقی کا فسوں

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)ترقی اور تنزل جب زیر بحث آتے ہیں تو ذہن اس طرف بھی متوجہ ہوتا ہے کہ ترقی یا تنزل میں کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ انفرادی یا اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں ترقی نصیب ہوتی ہے اور انفرادی یا اجتماعی تساہل اور عیش پسندی کے نتیجے میں قوموں کو زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترقی کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا

باطنی جو حقیقی ہے….. موجودہ دور میں سائنسی ترقی کا دارومدار صرف ظاہری ترقی پر ہے۔ بے شک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا اور جد وجہد کے نتیجے میں نئی نئی اختراعات کیں وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ترقی یافتہ قومیں سکون اور اطمینان قلب سے محروم ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ قومیں حقیقت سے بے خبر ہیں یا حقیقی دنیا کا ان سے ابھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے نہیں منڈلاتے۔ حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پر سکون رہتے ہیں۔ موجودہ دور بے شک ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں اور ذہنی انتشار سے نوع انسانی دو چار ہوئی ہے وہ اس سے پہلے کے دور میں نہیں ملتی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس ترقی کے پیچھے ذاتی منفعت ہے وہ انفرادی ہو یا قومی ہو۔ سائنس کی موجودہ جتنی بھی ترقی اب تک سامنے آچکی ہے۔ جب ہم اس کے افادی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ نوع انسانی کی فلاح و بہود کے پردے میں اس ترقی کا ما حصل دنیاوی لالچ ہے۔ اگر یہ ترقی فی الواقع نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی تو قوموں کو اطمینان و سکون نصیب ہوتا۔ انفرادی یا اجتماعی ذہن کے طرز فکر میں اگر یہ بات ہوتی کہ ہماری کوشش، جد وجہد اور اختراعات سے نوع انسانی کو اور اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے تو یہ انبیاء کی طرز فکر کی پیروی ہے ۔ دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا تعلق بر اور است طرز فکر سے ہے۔ ایک طرز فکر کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اوامر سے ہے اور ایک طرزِ فکر وہ ہے جو اللہ کی ناپسندیدہ باتوں پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزِ فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”ہماری نشانیوں پر غور و تفکر کرو اور عاقل بالغ باشعور اور سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔“ ظاہر حواس سے دیکھی جانے والی نشانیوں میں ہوا، پانی، دھوپ، رنگ، زمین کی نشود نما اور نئی نئی چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی کوکھ سے ایسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن چیزوں پر نہ صرف یہ کہ نوع انسانی بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق موجود ہے اس کی زندگی کا دارو مدار ہے ۔ ہوا ایک ایسی نشانی ۔ کہ جس سے زمین پر رہنے والا ایک متنفس بھی محروم نہیں ہے۔ پانی ایک ایسی نشانی ہے جو انسان کی زندگی کو فیڈ Feedنہ کرے تو زندگی ختم ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی ختم ہو جائے گی، پورا سیارہ زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ یہی حال دھوپ کا ہے۔ چاندنی کا ہے۔ درختوں کے سر سبز و شاداب ہونے اور رنگ برنگے پھولوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو اور اللہ کی دیگر مخلوقات کو فائدہ پہنچے۔ اس مختصر سی تمہید سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب انعام فرماتے ہیں تو مخلوق کو بلا تخصیص اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کی طرف سے کسی صلہ یا ستائش کی غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ ان کی شان کریمی ہے کہ انہوں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اتنے وسائل فراہم کر دیئے کہ فی الواقع مخلوق اس کا شمار ہی نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے وسائل بے حد و حساب عطا فرمائے ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم سائنسی ترقیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سائنس کی ہر ترقی میں ذاتی منفعت اور دنیاوی لالچ ملتا ہے جن لوگوں نے سائنسی ترقی حاصل کی ہے اور جو قومیں دنیا میں سب سے آگے ہیں وہاں ایک ہی کشمکش ملتی ہے کہ ہم کس طرح دوسروں پر غالب آجائیں۔ اس ترقی سے ہم اپنا اقتدار کس طرح مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس ترقی سے ہم دوسرے لوگوں کو شکست خوردہ قوم کس طرح بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ طرز فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزِ فکر کے متضاد ہے۔ جتنا قرب اللہ تعالیٰ سے بندے کو ہوتا ہے اسی مناسبت سے بندے میں اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس سے ایسے اعمال سر زد ہوتے رہتے ہیں جن سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اپنی کتاب لوح و قلم میں حضور قلندر بابا اولیاء نے نوع انسانی کو موجودہ بے سکون زندگی اور پر مصائب حالات سے آزاد ہونے کا نہایت مختصر مگر جامع حل بتایا ہے۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ساتھ ضرور دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے بذات خود جتنے طریقے وضع کئے سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ توحید کے علاوہ اب تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے ہیں اور تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں

کتاب لوح و قلم میں تحریر ہے کہ آج کی نسلیں گذشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہو نگی۔ نتیجہ میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ موجودہ دور کے مفکر اور سائنٹسٹ کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو سمجھے اور نوع انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے وظیفے جدا گانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسان کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں جن کا مقصد صرف توحید اور صرف توحید ہے اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکیں تو وہ اقوام عالم کو وظیفہ روحانی کے تحت ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی  ڈائجسٹ جون 2017

Loading