اس بستی کے اک کوچے میں اک انشا نام کا دیوانہ
شاعر۔۔۔شیر محمد خاں
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشا نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا مشہور ہے اسکا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہیں مہتاب رخ گلنار لئے
کچھ بات تھی اسکی باتوں میں کچھ بھید تھے اسکی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں ہوا اپ ہی اپ سے بیگانہ
نا چنچل کھیل جوانی کے نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں انکا ملنا تھا یا فون پہ انکی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے بے حاصل سا بے حاصل سا
اک زور بپھرتے ساگر میں نا کشتی تھی نہ ساحل تھا
جو بات تھی انکے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اک روز مگر برکھا رت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئے یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی سیلانی گھر کو لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرتے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری
اس روز ہمیں معلوم ہوا اس شخص کا مشکل سمجھانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں ہیں اس عالم میں دیوانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس بات پہ کچھ مت فرمانا
اب آگے کا تحقیق نہیں گو سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اسکو بلوایا کچھ سمجھانے بیچارے نے
اک رات یہ قصہ پاک کیا کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی اخبار سے لوگوں نے جانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں تم ہم کو کہانی کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا اس بات پہ پردہ رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی کس کام کا ایسا پچھتانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشا نام کا دیوانہ
شیر محمد خاں
ابن انشا