Daily Roshni News

جب دولت و اختیارانصاف پر حاوی ہو جائے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

‘ جب دولت و اختیارانصاف پر حاوی ہو جائے۔’

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔جب دولت و اختیارانصاف پر حاوی ہو جائے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)اسلام آباد کے ایک بااثر جج آصف کے پندرہ سالہ بیٹے نے وی ایٹ کو دو ایسی طالبات کی سکوٹی پر چڑھا دیا جو اپنے تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کے لیے جاب کرتی تھیں۔ان میں سے ایک کے ڈیزائنز کسی انٹرنیشنل برینڈ نے سلیکٹ کر لیے تھے اور وہ مستقبل میں اپنی غربت کے خاتمے کے لیے پر امید تھی۔اگر ایک نابالغ، غیر لائسنس یافتہ، لاپرواہ ڈرائیور کو گاڑی نہ دی جاتی تو آج دو جوان زندگیاں خاک میں نہ ملتی۔

   یہ پہلا واقعہ نہیں کہ پاکستان میں کسی امیر نے غریب کی جان لی ہو اور عدالت نے 5دن کے اندر اندر بنا کسی تفتیش،  ثبوت، گواہ کے مقتول کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر قاتل کو باعزت بری کر دیا۔بلکہ یہ عموما ہوتا ہے کہ قانون طاقتور کے گھر کا غلام اور غریب کے دروازے پر شیر ہوتا ہے۔ایک طرف غریب نےہیلمٹ نہ پہنا ہو،  لائسنس نہ ہو، بائیک پرتین سواریاں ہوں، انڈر ایج ڈرائیور ہو تو 2000 سے 8000 روپے تک کا جرمانہ، ایف آئی آر، اور بعض اوقات گاڑی موٹر سائیکل بھی بند کر دی جاتی ہے۔

دوسری طرف ایک نابالغ امیرزادہ گاڑی چلا کر دو زندگیاں لے لے تو وہاں قانون کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ نہ صرف گاڑی پر نمبر پلیٹ جعلی تھی بلکہ لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ غیر اخلاقی سرگرمی میں بھی مشغول تھا۔

     قوانین بظاہر عوام کی سلامتی کے لیے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پورا بوجھ صرف اور صرف غریب لوگوں کے کندھوں پر پڑتا ہے۔رکشہ اور چنگ چی پر پابندی عائد کر دی گئی۔جو لوگ جو کار ، وین پبلک ٹرانسپورٹ افورڈ نہیں کر سکتے۔اپنے آنے جانے بچوں کے اسکول کالج کے لیے یہی دو ذرائع استعمال کرتے تھے یا پھربائیک ۔

ایک طرف حکومت رکشہ اور چنگ چی پر پابندی لگا کر غریب پر ظلم کر رہی ہے۔اور دوسری طرف امراء کے بچے لائسنس کے بغیر، نشے کی حالت میں یا لاپرواہی سے مہنگی گاڑیاں چلا کر انسانوں کو کچل دیں تو نظام ان کے سامنے خاموش ہو جاتا ہے۔جب پالیسی ساز دفاتر میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کے پاس کتنی کم سہولیات ہیں۔ایسے میں اس پر جرمانہ کرنا، ایف آئی آر کرنا اور اسے ملزم بنا دینا گویا یہ کہنا ہے کہ غریب ہونے کی سزا بھگتو!

   ارباب اختیار و اقتدار کی زندگی کا واحد مقصد ایسی پالیسیز وقوانین بنانا ہے جس سے غریب ختم ہو جائے اور یوں غربت بھی۔اور اس کار خیر میں وہ اپنے کم سن بچوں کو یوں ٹرینڈ اور شامل کر رہے ہیں کہ انہیں گاڑیاں دے کر سڑکوں پرچھوڑ دیتے ہیں کہ مارو ان غریبوں کو۔

    یہی اگر کسی صاحب اختیار کے ساتھ کوئی ذیادتی ہو جائے، جیسے نور مقدم کے کیس میں ہوا، تو میڈیا، صحافی، این جی اوز، وکلاء سمیت ہر شخص واویلا مچا دیتا ہے۔خواہ مقتول و مظلوم کی بھی غلطی ہو اسے معصوم ترین پورٹرے کر کے ہر طرح سے اسے انصاف دلانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔لیکن ان بچیوں کے لیے تو ان کے والدین کو رونے سوگ منانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

   تباہ شدہ اقوام کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ امیر ملزم کی پشت پناہی کی جاتی تھی اور معصوم غریب اس کی سزا بھگتتا تھا۔آج ہمارے ساتھ بھی کچھ یہی ہو رہا ہے۔ قوانین توقرآن و حدیث اور قانون کی کتب میں صدیوں سے موجود ہیں مگر عملدرآمد نہیں۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بد امنی، فساد، قتل، ڈکیتی،  اغواء وغیرہ بڑھتے جا رہے ہیں۔کیونکہ جب کسی کو دیوار سے لگایا جاتا ہے تو یا تو جھک جاتا ہے یا ردعمل میں جوابی حملہ کرتا ہے۔جب ریاست لوگوں کو تحفظ نہیں دیتی تو لوگ اپنا انصاف خود کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم واقعی معاشرے میں امن چاہتے ہیں ۔تو چند بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں: کم عمر ڈرائیونگ پر ہر طبقے کے لیے سخت سزا۔امیر ہو یا غریب گاڑی نابالغ کو دینے والا والد، سرپرست یا مالک برابر ذمہ دار ہو۔ جرمانے آمدنی کے حساب سے لیے جائیں۔ رکشہ اور چنگ چی پر پابندی نہیں بہتری کی ضرورت ہے۔کوئی متبادل دیا جائے جیسے بلوچستان کینٹ اور کورٹ میں الیکٹرک رکشاز، گرین بسز ہیں جن کا کرایہ صرف تیس روپے ہے۔

اسلام آباد کا یہ سانحہ صرف ایک کیس نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنا بدصورت، بے انصاف معاشرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ جہاں ایک جج مجرم کو صرف اس لیے آزاد کر دیتا ہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔اس معاشرے میں غریب خودکشی نہ کرے تو اسے قتل کرنا امیر پر واجب ٹھہرتا ہے کہ اسے جینے ، خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں۔اس لیے آئندہ جب گھر سے باہر نکلیں تو ذرا دیکھ کر چلیں کہیں آپ کے اردگرد کوئی بڑی گاڑی، کسی امیر کا گزر نہ ہو ورنہ نتائج کے ذمے دارآپ خود ہوں گے۔

Loading