صدائے جرس
دعا اور نصیحت
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشل۔۔۔صدائے جرس۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب) ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ چھوٹے بچے جب اپنے بڑوں کے سامنے جاتے ہیں تو ادب سے سلام عرض کرتے ہیں…. ادب و احترام کا اظہار کرتے ہیں …. ہر چھوٹا اپنے بزرگوں سے د عا کا طالب ہوتا ہے۔ کہتاہے میرے لئے دعا فرمائے ۔ بزرگ دعائیں دیتے ہیں ۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ اس دعا اور شفقت سے ہاتھ پھیر نے سے تسکین ہوتی ہے۔ آپ گھر کے بزرگ کے پاس جائیں وہ آپ کو دعائیں دیں گے ، سر پر ہاتھ پھیریں گے یا آپ کی پیشانی چومیں گے ۔ آپ کو اس سے ایسی تسکین کا احساس ہوتا ہے جس کی کسی بھی طرح قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔
دعا کے علاوہ سعادت مند بچے یا نوجوان اپنے بزرگوں سے یہ عرض بھی کرتے ہیں کہ محترم ہمیں کوئی نصیحت کر دیں۔ بزرگ پہلے انہیں دعا دیتے ہیں یا پھر کوئی نصیحت بھی کردیتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کیا کرو… کسی کی دل آزاری نہ کیا کرو…. وغیرہ وغیرہ۔
بزرگوں کی نصیحت پر آدمی عمل پیر اچاہے نہ بھی ہو سکے لیکن ایک ایسا جذبہ اور ولولہ آدمی کے اندر ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ایسا کر نا چا ہے ۔ جو سعید لوگ ہوتے ہیں وہ نصیحتوں پر عمل بھی کرتے ہیں اور یہ عمل ان کی زندگی کے لئے ایک مشعل راہ بن جاتا ہے۔
میں نے یہ تمہید اس لئے عرض کی کہ اب میں بھی اس کشتی میں سوار ہوں جہاں بزرگی کا دور بھی گزر جاتا ہے ۔ کیونکہ آج کل تو لوگ پچاس سال میں ہی بزرگ ہو جاتے ہیں۔ دانت ٹوٹ جاتے ہیں، کمر جھک جاتی ہے اور گھٹنوں میں درد شروع ہو جاتا ہے تو اس طرح وہ بزرگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بچے ان کی عزت کرنے لگتے ہیں۔ جب اللہ تعالی کسی کو عزت دینا چاہتے ہیں تو وہ وسائل فراہم کر دیتے ہیں جن سے آدمی کو عزت نصیب ہوتی
ہے۔ الله تعالی جب کسی کو عزت دینا چاہتے ہیں تو لوگوں میں اس کے لئے محبت ڈال دیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو الله تعالی اس کی دعا کو قبول کر لیتے ہیں۔
ایک مریض آیا اس نے کہا عظیمی صاحب میں بیمار ہوں۔ میں نے دعا کر دی یا کوئی علاج بتادیا۔ اللہ تعالی نے اسے شفادےدی۔ نام یہ ہوا بھئی عظیمی صاحب سے علاج کروایا تھا اس لئے ٹھیک ہو گئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عظیمی صاحب کے پاس جتنے بھی لوگ آتے ہیں سب ہی ٹھیک نہیں ہو جاتے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عظیمی صاحب کے پاس جتنے لوگ آتے ہیں ان میں سے اکثریت ٹھیک ہو جاتی ہے مگر در حقیقت عظیمی صاحب تو یہ چاہتے ہیں کہ جو بندہ بھی آئے صحت مند ہو جائے…. اس کا مسئلہ حل ہو جائے….
غور کیا تو معلوم ہوا…. سیدھی سی بات ہے جس کو اللہ تعالی ٰمحبت دینا چاہتے ہیں اسے صحت ہو جاتی ہے اور جس کے لئے ابھی صحت کا حکم نہیں ہوا ہے وہ اپنی بیماری کا وقت پورا کرتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی صاحب آتے ہیں…. کہتے ہیں دعا کر دیں ۔ ہم کہتے ہیں ہاں بھئی دعا کردیں گے۔ ساتھ دل میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں یا اللہ ! یہ صاحب معلوم نہیں کہاں سے آئے ہیں…. بڑے ارمان سے آئے ہیں۔ یا اللہ ان کا کام کردے۔ انہوں نے بطور خاص دعا کے لئے بھی کہا تھا مگر مصروفیات میں وہ یاد ہی نہ رہا۔ مگر اسی وقت سے کہہ دیا تھا اسے اللہ تعالی قبول فرمالیتا ہے۔ ان صاحب کا کام ہو جاتا ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس بندے کا کام ہو جائے ۔ رات گئےاٹھتے ہیں …… کچھ پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں …… پیر و مرشد سے جو تصرف کرنے کا طریقہ منتقل ہوا ہے وہ بھی کرتے ہیں۔ نماز کے بعد بھی وعاکرتے ہیں…. صبح مراقبہ کا وقت بہت اچھا ہوتا ہے…. یکسوئی جلد ہو جاتی ہے۔ اس میں بھی دعا کرتے ہیں لیکن …. لیکن کام نہیں ہوتا۔
یہ میرا چالیس سال کا تجربہ ہے کہ اللہ تعالی نہیں چاہتے تو کام نہیں ہوتا۔ بندے کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ اللہ کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی د عا قبول کرتے ہیں تو کام ہوتا ہے ورنہ نہیں …… دنیامیں کوئی ایساروحانی بزرگ نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ میں جو چاہے کر سکتا ہوں۔ وہ یہی کہتا ہے کہ ہم دعا کریں گے تم بھی دعا کرو، محنت کرو تو انشاء اللہ کام ہو جائے گا۔
ہم جب کسی بزرگ سے یہ کہتے ہیں کہ نصیحت کیجئے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالی کےفضل و کرم سے اپنی اصلاح کا مادہ موجود ہے۔ ہمارے اندر جو کمزوریاں ، کوتاہیاں اور غلطیاں ہیں ہم انہیں ختم کر کے زندگی میں اچھائیاں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اکثر مجھ سے کہتے ہیں ہمیں نصیحت کیجئے۔ میں سوچتا ہوں میں اگر یہ نصیحت کروں کہ نماز پڑھا کرو !‘‘ …. تو یہ سب کو علم ہے کہ نماز فرض ہے اسے تو کسی حال میں ترک نہیں کیا جا سکتا…. کسی سے کہوں کہ ” لالچ نہ کرو، تو کسی بھی راہ چلتے شخص کو روک کر پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ یہ بری بات ہے…. ایک انتہائی درجہ کے جواری شرابی سے پوچھیں کہ جو ااور شراب کے بارے میں کیا خیال ہے تو وہ کان پکڑ کر کہے گانہ نہ بہت بری بات ہے…. بہت غور و فکر، سوچ و بچار کیا تو ذہن میں ایک نکتہ کی بات آئی کہ نصیحت یہ کرنی چاہئے کہ “خوش رہو
اس پر مزید غور و فکر کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اللہ تعالی نے آدم کی رہائش کے لئے جنت بنائی۔ جنت کا مطلب یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں غم ، خوف، ڈر، فساد اور مشقت نہ ہوئے سکونی، بد صورتی، گندگی، غلاظت اور کثافت نہ ہو۔ جب غم اور خوف ختم ہو جائے تو خوشی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ آدم نے درخت کے قریب جاکر نافرمانی کی۔ افسوس اور علم ہوا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ غم کا مطلب کیا ہے ؟ ناخوشی…!
جیسے ہی قوم کے اندر خوشی کے بجائے ناخو شی در آئی اللہ تعالی نے کہا اب تم یہاں سے اتر جاؤ۔ بہر حال آدم زمین پر آگئے طویل عرصہ تک آہ وزاری کرتے رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت یہ ہے کہ انہوں نے عاجزی و انکساری سے دعا کر کے اپنی خطا معاف کروالی تو فارمولہ یہ سامنے آیا کہ انسان جب تک خوش نہیں رہے گا جنت میں نہیں داخل ہو سکے گا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017