قسط نمبر 14
مسیح الدجال
تحریر ڈاکٹر عبدالروف
9 اگست 2022
دجال: احادیث کی نظر میں
دجال اور بلاد شام
دور فتن اور خروج دجال کا بلاد شام سے تعلق واضح کرنے کے لیے ہم نے بچھلی قسط میں چند احادیث نقل کی تھیں اب کچھ مزید روایات بیان کرنے کے بعد ہم ان شاءاللہ شام کے علاؤہ خوزستان ، اور ایران کے علاقوں کا تعلق بھی واضح کریں گے ۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ خلق وامر میں مبدا (ابتدائی مقام) و معاد (آخری مقام ) مکہ اور شام ہیں‘ ارادہ تکوینی ہو یا شرعی۔ دنیا و دین کی ابتدا مکہ سے ہوئی اور دنیا و دین کی انتہا شام میں ہو گی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دین کی ابتدا اور ظہور مکہ سے ہوا اور اس کا کمال و عروج شام میں مہدی کے ظہور سے حاصل ہو گا .
(مجموعہ الفتاویٰ۔۔مجمع الملک فہد 1995 )
جیسا کہ
حضرت عبد اللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
سَیَصِیْرُ الْاَمْرُ إِلٰی أَنْ تَ کُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَۃً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْیَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ
قَالَ ابْنُ حَوَالَۃَ خِرْ لِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: عَلَیْکَ بِالشَّامِ فَإِنَّھَا خِیَرَۃُ اللّٰہِ مِنْ أَرْضِہٖ یَجْتَبِیْ إِلَیْھَا خِیَرَتَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ، فَاِمَّا إِنْ أَبَیْتُمْ فَعَلَیْکُمْ بِیَمَنِکُمْ، وَاسْقُوْا مِنْ غُدْرِکُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَوَکَّلَ لِیْ بِالشَّامِ وَأَھْلِہٖ
(سنن ابی داؤد ، کتاب الجہاد )
”تمہارے دین اسلام کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں‘ ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا“۔ ابن حوالہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے میں کوئی وصیت فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ تعالیٰ نے میرا اکرام کرتے ہوئے شام اور اہل شام کی ذمہ داری لے لی ہے۔“
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیاہے.
(سنن ابی داؤد 4422 مؤسسہ الغراس الکویت 2002)
بعض احادیث نبویہ میں دورِ فتن میں سرزمین بلادِ شام میں قیام کی تاکید بھی کی گئی ہے۔
بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل ِروم کی طرف سے اہل شام پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔
حضرت ابو نضرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ انہوں نے فرمایا:
یُوْشِکُ أَھْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لَا یُجْبٰی إِلَیْھِمْ قَفِیْزٌ وَلَا دِرْھَمٌ، قُلْنَا مِنْ أَیْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ یَمْنَعُوْنَ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ: یُوْشِکُ أَھْلُ الشَّامِ أَنْ لاَ یُجْبٰی إِلَیْھِمْ دِیْنَارٌ وَلَامُدْیٌ‘ قُلْنَا مِنْ أَیْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الرُّوْمِ
”قریب ہے کہ اہل عراق کو ان کا قفیز (ناپنے کا ایک پیمانہ) اور درہم (چاندی کے سکے) کچھ فائدہ نہ دیں۔ ہم نے کہا: ایسا کہاں سے ہو گا؟ تو انہوں نے کہا: عجم سے ہو گا‘ وہ اسے روک دیں گے۔ پھرحضرت جابر ؓنے کہا: قریب ہے کہ ِاہل شام کو ان کا دینار (سونے کی کرنسی) اور مدی (ماپ تول کا ایک پیمانہ) کچھ فائدہ نہ دے۔ تو ہم نے کہا: یہ کیسے ہو گا؟ تو حضرت جابر ؓنے کہا: یہ ا ہل روم کی طرف سے ہو گا۔“
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔
یہ روایت بہت اہم ہے ۔ اور آج کے دور میں معیشت کے نظاموں کے فسوں کی قلعہ کھول دیتی ہے ۔ دجال سونے چاندی کی کرنسی تبدیل کرے گا ۔
یاد رہے کہ پیپر کرنسی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ۔ اسلام بارٹر ٹریڈ اور سونے چاندی کی کرنسی کو سپورٹ کرتا ھے ۔کیونکہ پیپر کی رسیدوں پر مشتمل کرنسی کی کوئی حقیقی قیمت نہیں جبکہ اس کے برعکس سونا چاندی اور اشیاء اپنی ثمن (worth) رکھتے ہیں ۔ اسی پیپر کرنسی نے سود ، قمار اور غرر کے نت نئے راستے کھولے ۔ دجال کے گماشتے کرنسی کے اسی فسوں میں جکڑ کر اسلامی ملکوں کو سودی قرضوں کے بوجھ تلے دباتے ہیں ۔ اور پھر بڑھتے بڑھتے سود کے ذریعے دیوالیہ کرتے ہیں ، اقتصادی پابندیوں میں جکڑتے ہیں تاکہ طاغوت کے سامنے کوئی سر نہ اٹھا سکے ۔ اس حدیث مبارکہ میں دور فتن میں مغربی ممالک کی طرف سے اسلامی ممالک پر اقتصادی پابندیوں کے لگنے کا اشارہ ملتا ھے ۔ جس کی ذندہ مثال ہم کئی دہائیوں سے مشاہدہ کر رہے ھیں ۔
اس روایت کے مفہوم سے اہل فلسطین ، افغانستان ، عراق ، شام ،ترکی اور دنیا کے وہ سب اسلامی ممالک بھی مراد لیے جا سکتے ہیں کہ جنہیں امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے متعدد اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے اور موجودہ شام بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جسے حالیہ حالات کے سبب کئی لحاظ سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔