ہمارا معاشرہ جس رفتار سے ترقی کررہا ہے لوگ نہ جانے کیوں اسی رفتار سے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ کوئی اپنے پاس اصولی موقف رکھنے کو تیا ر ہے نہ ماننے کو۔ اب اس کی وجہ تعلیم کی کمی کہیں یا شعور ِآگہی کا نہ ہونا دونوں صورتوں میں خود غرضی اور مفادپرستی کا رحجان عام ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں حسد و کینہ اس قدر پرورش پانے لگا ہے کہ انسان انسان کو نقصان پہنچا کر تسکین محسوس کرنے لگا ہے۔ مقابلے کی اس ڈور میں انسان اس قدر پاگل ہوگیا ہے کہ اپنی اہلیت اور قابلیت کو چھوڑ کر دوسرے کی اہلیت اور قابلیت پر ڈاکہ ڈالتا نظر آتا ہے جس کا مقصد صرف و صرف سامنے والے کو نیچا دکھا کر اپنے چھوٹے قد میں اضافہ کرنا ہے یہی انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا جس پر انعام و اکرام کی بارشیں کی علم وہنر جیسے انمول خزانے عطا کئے آ ج وہی انسان ان تمام نعمتوں کو چھوڑ کر حقیقت پسندی سے کوسوں دور جھوٹی شان کی چادر اوڑھ کر اپنے لیے تباہی کے ٹھکانے تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ اپنے عیب زدہ دامن کو چھپانے کے لیے دوسروں کے پاک دامن پر کیچڑ اچھالنا اسے جینے کے لیے آکسیجن کا زریعہ معلوم دیتی ہیں ۔
جس طرح ایک مثبت سوچ رکھنے والا چاہتا ہے کہ اسکے اردگرد موجود لوگوں کی سوچ بھی مثبت ہو، تاکہ زندگی کو اسکے اصل مقصد کے تحت گزارہ جا سکے بالکل اسی طرح ایک منفی سوچ رکھنے والا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کے اردگرد موجود لوگوں کی سوچ بھی اس کی طرح منفی ہو تاکہ وہ تنہائی کا شکار نہ رہے اور معاشرے میں منفی سوچ کو فروغ دے کر اپنی نااہلی اور ناکامیوں کو چھپا سکے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کے طور پر پیش کر سکے. مثبت سوچ رکھنے والوں کے سامنے اس طرح آکھڑاہو جیسے سارا زمانہ اسی کے ساتھ کھڑا ہے۔
بس یہی سوچ معاشرے کی تباہی اور بگاڑ کا باعث ہے جہاں معاشرہ دو طبقاتی اکا ئیوں کے طور پر مثبت و منفی سوچوں پر منقسم ہے اور اگر دیکھا جائے تو منفی سوچ کا رجحان مثبت سوچ پر غالب نظر آتا ہے۔
آپ اپنی عام زندگی پرنظر ڈالیں آپ کو اپنے اردگرد ایسے بے شمار لوگ نظر آئینگے جو بظاہر تو علم وہنر سے شرشار معلوم دینگے کامیابی و کامرانی کے دعویدار بھی ہونگے دولت و شہرت سے مالا مال بھی ہونگے لیکن جب آپ انکے ذہن کو پڑھیں گے ان کی فطرت کا جائزہ لینگے ان کی سوچوں کو اصولوں کے ترازوں میں تولیں گے تو آپ کو اس کے مثبت ومنفی نظریئے کی گہرائی کا اندازہ ہوجائے گا. منفی سوچ کا اثر صرف ایک ذات پر نہیں ایک خاندان پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے جس طرح ایک انسان کا اچھا عمل پورے معاشرے میں بھلائی کا باعث بنتا ہے اسی طرح ایک انسان کی منفی سوچ یابرا عمل بھی پورے معاشرے میں برائی کا سبب بنتا ہے جس کا خمیازہ نسلوں کو، قوموں کو، یہاں تک کہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اگر ہمیں اپنے ارگرد کے ماحول کو خوبصورت بنانا ہے زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ خوبصورت لمحوں میں ڈھالنا ہے دل چاہتاہے کہ ہر چیز خوبصورت نظر آئے، اس کائنات کے رنگوں میں کھونا ہے اسے چھونا ہے محسوس کرنا ہے اگر آپ نے زندگی کو صحیح معنوں میں جینا ہے تو پھر اپنی سوچ کو مثبت انداز میں ڈھالنا ہوگا اپنی سوچ کو خوبصورت بنانا ہوگا اصولوں کو اپنانا ہوگا مقابلے کی اُس دوڑ سے نکلنا ہوگا جو گمراہیوں کی سمت اشارہ کرتی ہیں۔ اپنی اہلیت و قابلیت پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں دوسرے کے دامن کو داغ دار کرنے کے بجائے اپنے دامن کو صاف رکھنا ہوگا. یقین جانئیےاگر آپ اچھے ہوگئے تو آپ کے اردگرد کا ماحول خود بخود آپ کے تصور سے کئی زیادہ حسین ہوگا لیکن یاد رکھیں سوچ کی تبدیلی ضروری ہے۔