سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب
کےحالات زندگی اور کرامات
(قسط نمبر2)
بشکریہ ماہنامہ روحانہ ڈائجسٹ اکتوبر2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب۔۔۔کے حالات زندگی اور کرامات) علی بن عثمان نے اسلامی ممالک کے دور دراز علاقوں کے سفر کیسے اور تلاش حق میں شام سے ترکستان، سندھ سے بحر کیسپین تک کا علاقہ چھان مارا۔ ایک طویل سفر کے بعد علی بن عثمان واپس اپنے مر شد شیخ ختلی کی خدمت آگئے۔ ایک روز اچانک شیخ ختلی نے اپنے ہونہار شاگرد علی بن عثمان سے ارشاد فرمایا: ” سر زمین لاہور کی جانب کوچ کر جاؤ۔“ و حضور ! وہاں تو پہلے سے حسین زنجائی شمع ہدایت روشن کیے بیٹھے ہیں۔ مجھ ناچیز کی کیا ضرورت آن پڑی؟“ سید علی ہجویری نے بصد احترام سوال کیا۔ عزیزم ! یه لیت و لعل کا موقع نہیں رخت سفر باند ھو اور کوچ کر جاؤ۔ شیخ نے متبسم لیجے میں فرمایا۔ دمشق سے غزنی اور لاہور تک کے اس سفر میں علی ہجویری کے ہمراہ ان کے دو ساتھی سید احمد حمادی سرخسی اور شیخ ابو سعید ہجویری تھے۔ جس دن لاہور پہنچے رات ہو گئی تھی۔ شہر کے دروازے بندے ہو گئے تھے ۔ لہذا فصیل شہر کے باہر رات گزاری۔ صبح اٹھے تو شیخ کے حکم میں پوشیدہ حکمت آشکار ہوئی۔ دیکھا کہ چند افراد، بصد احترام ایک جنازہ لیے شہر کے مشرقی حصے سے باہر آرہے تھے۔ انہوں نے تجس سے ایک شخص نے تاسف بھرے لہجے میں جواب دیا دریافت کیا کہ یہ کس ہستی کا سفر آخرت ہے ….؟ یہ جنازہ ولی وقت میراں حسین زنجانی کا ہے۔“ تینوں مسافر تو بس دھنک سے دم بخود ہو کر رہ گئے۔ جب جنازے کے شرکاء کو پتا چلا کہ آپ حضرت شیخ حسین زنجائی کے پیر بھائی ہیں تو ان کے اصرار پر آپ نے پہلے جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین کے عمل سےفارغ ہو کر شہر کی جانب روانہ ہوئے۔
یہ عہد غزنوی خاندان میں سلطان مسعود بن محمود غزنوی کا تھا۔ 412ھ بمطابق 1021ء میں لاہور سلطنت غزنویہ میں شامل کیا گیا گیا ۔ لاہور اس زمانے میں شہر نہیں بلکہ صوبے کا نام تھا۔ محمود غزنوی کا انتقال ہوا تو اس کی سلطنت میں آتش فساد بھڑک اُٹھی۔ لاہور بھی فساد وانتشار سے محفوظ نہ رہا۔ سلطان محمود غزنوی کے بعد اس کا بیٹا سلطان مسعود لاہور کا سلطان تھا۔ مگر راجے جے پال کے بیٹے راجے انگ پال نے ایک زبر دست حملہ کر کے مسعود سے حکمرانی چھین لی اور جوش انتقام میں اس نے لاہور میں قتل عام شروع کر دیا۔ فساد کا یہ عرصہ 16 سال پر محیط رہا۔ لوگ فساد کے ڈر سے شہر چھوڑ کر ہجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ قریب تھا کہ شہر لہور سے مسلمان ختم ہو جاتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سید علی ہجویری گولاہور بھیجا گیا۔
شروع ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہو ر دوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا اور اللہ اکبر کی تکبیر میں گلی گلی کوچے کوچے بلند ہو نا شروع ہو گئیں۔ فصیل شہر لاہور کے باہر (جہاں موجودہ مزار ہے) سید علی ہجویری نے قیام کیا۔ آپ جس وقت لاہور تشریف لائے تو وہاں مسلمانوں کی تعداد اس قدر قلیل تھی جیسے آٹے میں نمک، لاہور کا نائب سمیٹے واپس ہوئی۔ گورنر ایک غیر مسلم تھا جو عوام سے جبری ٹیکس وصول کرتا۔ اس وقت لاہور میں جادو گروں نے بھی ڈیرہ جما رکھا تھا ، بڑے بڑے نذرانے اور بھینٹ وصول کی جاتی تھی۔ جو ان ۔ جو ان جادو گروں کی خاطر مدارت نہ کرتا اسے جادو کے ذریعے نقصان پہنچاتے۔ ایک دن ایک عمر رسیدہ خاتون جائے قیام کے قریب سے گزری۔ اس کے سر پر دودھ بھری گاگر دیا….؟ تھی۔ آپ نے بڑے احترام سے اسے اپنے قریب بیٹھا یا اور گفتگو کا آغاز کیا۔
مشکل ہو گیا۔ جب دوسرے گوالوں کو پتہ چلا کہ اس مسلمان میں بڑی کرامات ہیں تو دوسرے روز وہ بڑھیا ناصرف اپنے سر پر دودھ بھری گا گر اُٹھا لائی بلکہ اس کے پیچھے گوالنوں، گوالوں کی لمبی قطار چلی آرہی تھی۔ ولی وقت نے کسی آنے والے کو مایوس نہیں کیا۔ سب کا نذرانہ قبول کر لیا اور خلق خدا دامن میں خوشیاں سید علی ہجویری کی یہ قیام گاہ دریائے راوی کے کنارے تھی، یہ خبر سارے شہر میں پھل گئی کہ کوئی مہاجو گی ، بڑی کرنی والا درویش ، دریا کنارے ڈیرا لگائے بیٹھا ہے اور خلق خدا کو فیض یاب کر رہا ہے ۔ رائے راجو کو خبر ہوئی تو وہ بھناتا ہوا آپ کے ٹھکانے آیا۔ علی ہجویری سے پوچھا کہ ”ہمارا دودھ کیوں بند کراآپ نے فرمایا۔ “حاکم کا کام لوگوں کے رزق کی حفاظت کرنا ہے، ان کے منہ سے نوالے چھیننا نہیں۔ تم نے یہ کیا ظلم و ستم کر رکھا ہے ؟” راجو نے کرخت لہجہ میں کہا۔ ” میں باتوں سے مرعوب ہونے والا نہیں ۔ تم میں کوئی کمال ہے تو دکھاؤ” رائے راجو نائب شہر ہونے کے علاوہ ایک ماہر جوگی بھی تھا۔ اس نے حضرت علی ہجویری کو مرعوب کرنے کے لیے کئی محیر العقول کمالات دکھانے چاہے ۔ راجو ۔ ۔ راجو نے اپنی طرف سے بہت کوشش کر ڈالیں لیکن حضرت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ آخر کار اس نے ہار مان لی اور اپنا سر درویش کے قدموں میں رکھ دیا۔ رائے راجو کے قبول اسلام کے بعد حضرت علی محترم خاتون یہ دودھ کہاں لے جارہی ہو “ بڑھیا نے جواب دیا، ” رائے راجو کی نذر کرنے۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر ہم اپنے مویشیوں کا دودھ راجو مہاراج کی نذر نہ کریں تو جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے اور جانوروں کے تھنوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔“ یہ تو سراسر ظلم ہے۔“ بڑھیا کی بات سننے کے بعد علی ہجویری نے متفکر لہجے میں کہا۔ ”دیکھو خاتون آج یہ دودھ نہیں دے جاؤ” بڑھیا نے قدرے تذبذب کے بعد درویش کی بات مان لی۔ وہ دودھ بیچ کر اپنے گھر پہنچی اب جو اس نے اپنے مویشوں کا دودھ دھویا تو اتنا نکلا کہ سنبھالنا ہجویری نے اسے شیخ ہندی کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کے لاہور میں امن اس وقت قائم ہوا جب لاہور کا صوبے دار محمود غزنوی کا غلام ایاز مقرر ہوا۔ ایاز کی کو ششوں سے امن و امان بحال ہوا۔ اسی برس سید علی ہجویری نے لاہور میں قدم رکھا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ لاہور کے صوبے دار ملک ایاز کو خواب میں حکم ملا کہ وہ فوری طور پر اب غزنی کے نئے مسافر کا غلام ہو جائے، اس نے حضرت داتا گنج بخش کے پاس آج یہ و حاضری دی اور بیعت کے بعد آپ کے ہاتھوں فقر و غنا کا جامہ پہن کر یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ لاہور کو دوبارہ آباد کرے گا ۔ وہ مسلمان جو لاہور چھوڑ گئے تھے ملک ایاز کی قیادت میں جوق در جوق واپس آناشروع ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاہو ر دوبارہ آباد ہونا شروع ہو گیا اور اللہ اکبر کی تکبیر میں گلی گلی کوچے کوچے بلند ہو نا شروع ہو گئیں۔
فصیل شہر لاہور کے باہر (جہاں موجودہ مزار ہے) سید علی ہجویری نے قیام کیا۔ آپ جس وقت لاہور تشریف لائے تو وہاں مسلمانوں کی تعداد اس قدر قلیل تھی جیسے آٹے میں نمک، لاہور کا نائب سمیٹے واپس ہوئی۔ گورنر ایک غیر مسلم تھا جو عوام سے جبری ٹیکس وصول کرتا۔ اس وقت لاہور میں جادو گروں نے بھی ڈیرہ جما رکھا تھا ، بڑے بڑے نذرانے اور بھینٹ وصول کی جاتی تھی۔ جو ان ۔ جو ان جادو گروں کی خاطر مدارت نہ کرتا اسے جادو کے ذریعے نقصان پہنچاتے۔ ایک دن ایک عمر رسیدہ خاتون جائے قیام کے قریب سے گزری۔ اس کے سر پر دودھ بھری گاگر دیا….؟ تھی۔ آپ نے بڑے احترام سے اسے اپنے قریب بیٹھا یا اور گفتگو کا آغاز کیا۔
محترم خاتون یہ دودھ کہاں لے جارہی ہو “ بڑھیا نے جواب دیا، ” رائے راجو کی نذر کرنے۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر ہم اپنے مویشیوں کا دودھ راجو مہاراج کی نذر نہ کریں تو جانوروں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے اور جانوروں کے تھنوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔“ یہ تو سراسر ظلم ہے۔“ بڑھیا کی بات سننے کے بعد علی ہجویری نے متفکر لہجے میں کہا۔ ”دیکھو خاتون آج یہ دودھ نہیں دے جاؤ” بڑھیا نے قدرے تذبذب کے بعد درویش کی بات مان لی۔ وہ دودھ بیچ کر اپنے گھر پہنچی اب جو اس نے اپنے مویشوں کا دودھ دھویا تو اتنا نکلا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ جب دوسرے گوالوں کو پتہ چلا کہ اس مسلمان میں بڑی کرامات ہیں تو دوسرے روز وہ بڑھیا ناصرف اپنے سر پر دودھ بھری گا گر اُٹھا لائی بلکہ اس کے پیچھے گوالنوں، گوالوں کی لمبی قطار چلی آرہی تھی۔ ولی وقت نے کسی آنے والے کو مایوس نہیں کیا۔ سب کا نذرانہ قبول کر لیا اور خلق خدا دامن میں خوشیاں سمٹیے واپس ہوئے۔
سید علی ہجویری کی یہ قیام گاہ دریائے راوی کے کنارے تھی، یہ خبر سارے شہر میں پھل گئی کہ کوئی مہاجو گی ، بڑی کرنی والا درویش ، دریا کنارے ڈیرا لگائے بیٹھا ہے اور خلق خدا کو فیض یاب کر رہا ہے ۔ رائے راجو کو خبر ہوئی تو وہ بھناتا ہوا آپ کے ٹھکانے آیا۔ علی ہجویری سے پوچھا کہ ”ہمارا دودھ کیوں بند کرادیا۔۔۔؟
آپ نے فرمایا۔ “حاکم کا کام لوگوں کے رزق کی حفاظت کرنا ہے، ان کے منہ سے نوالے چھیننا نہیں۔ تم نے یہ کیا ظلم و ستم کر رکھا ہے ؟” راجو نے کرخت لہجہ میں کہا۔ ” میں باتوں سے مرعوب ہونے والا نہیں ۔ تم میں کوئی کمال ہے تو دکھاؤ” رائے راجو نائب شہر ہونے کے علاوہ ایک ماہر جوگی بھی تھا۔ اس نے حضرت علی ہجویری کو مرعوب کرنے کے لیے کئی محیر العقول کمالات دکھانے چاہے ۔ راجو ۔ ۔ راجو نے اپنی طرف سے بہت کوشش کر ڈالیں لیکن حضرت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ آخر کار اس نے ہار مان لی اور اپنا سر درویش کے قدموں میں رکھ دیا۔ رائے راجو کے قبول اسلام کے بعد حضرت علی ہجویری ؒنے اسے شیخ ہندی کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کےپاکستان کا قیام کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔ مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی نصابی کتاب اٹھائے ، مسلم معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے ہمیں کتنے ہی صوفیائے کرام کے تذکرے اور کوششیں نظر آئیں گی۔ اس مملکت کی تشکیل کا آغاز تو اس خطے میں داتا گنج بخش اور خواجہ معین الدین چشتی کی آمد سے شرع ہو گیا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز کے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں ، حضرت شاہ نعمت اللہ کے اشعار کے علاوہ بیانیہ طور پر دیگر کئی روحانی بزرگوں کے الفاظ میں ملتی ہیں۔ حضرت مجددالف ثانی نے ہندوستان میں احیائے اسلام کی بنیادیں استوار کیں، حضرت شاہ ولی اللہ نے اسے اپنی مجتہدانہ کوششوں سے سینچا۔ اگلے دور میں حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی نے مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے فرمایا ” دینی تعلیم کے خاطر خواہ انتظام کے ساتھ مسلمان طلبہ جدید درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ “ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے صوفیانہ افکار اور روحانی مساعی سے ان راہوں کی تعمیر نو کی ، اعلحضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے اپنی کتاب الحجب الموتمنہ میں دو قومی نظریئے کو درست ثابت کرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کی۔
پروفیسر مسعود الحسن صاحب عالم و فاضل شخصیت تھے۔ وہ اپنی انگریزی کتاب ، حضرت داتا گنج بخش، روحانی سوانح عمری ( Hazrat Data Ganj Bakhsh; a Spiritual Biography مطبوعہ دتا گنج بخش آکادمی صفحہ (3) میں لکھتے ہیں کہ میں 1930ء میں لاہور آیا اور داتا گنج بخش مزار کے قریب رہائش اختیار کی۔ علامہ اقبال ان دنوں اکثر نماز فجر سے قبل داتا گنج بخش حاضری دیا کرتے تھے جہاں میری ان سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے علامہ صاحب کے ارشاد کے مطابق ان کے لئے انگریزی میں کچھ کام کیا اور ان کی تقاریر لکھنے میں بھی مدد کی جن میں خطبہ الہ آباد بھی شامل ہے۔ پروفیسر مسعود الحسن لکھتے ہیں کہ میرے پوچھنے پر علامہ اقبال نے بتایا کہ انہیں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خیال داتا گنج بخش “مزار میں عبادت کے دوران سو جھا۔ لطف کی بات ہے کہ ایک انگریز مصنف ایولن ریچ نے اپنی کتاب۔ Immortal Year میں لکھا ہے کہ میں نے جناح سے پوچھا کہ آپ کو سب سے پہلے پاکستان کا خیال کب آیا اور یہ تصور آپ کے ذہن میں کب ابھرا؟ جناح کا سیدھا سا جواب تھا۔ 1930ء میں “۔
گویا علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو پہلی بار پاکستان کا خیال 1930ء میں آیا۔ تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور اس کے بعد سے آج تک کے ادوار کا بنظر غائر جائزہ لیں تو روحانی بزرگوں کی دعاؤں ، تاثیر روحانی اور تصرف کا بھر پور احساس ہوتا ہے۔ روحانی بزرگوں کے تصرف اور پاکستان پر ان کی فیض رسانی کا حال بیان کرتے ہوئے ممتاز مفتی مرحوم نے تحریر کیا ہے کہ : ” بابے افراد نہیں بلکہ ایک سلسلہ ہیں جو جاری رہتا ہے۔ بابوں کی ڈیوٹیاں متعین ہوتی ہیں ۔ یہ بابے اللہ کے چاکر ہیں اس کا حکم بجالانے پر مامور ہیں۔ کوئی فیلڈ آفیسر ہے کوئی سیکریٹریٹ سے متعلق ہے۔ کسی کو حکم ہے کہ خود کو ظاہر کرے۔ کسی کو حکم ہے کہ پر دے میں رہ کر کام کرے۔ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی حالات میں باباؤں کا ہاتھ ہے۔ یہ بھید داتا صاحب نے کھولا ہے۔ داتا گنج بخش کی کتاب “کشف المحجوب“ کے حوالے پیش کرتے ہوئے ممتاز مفتی اپنی بات یوں آگے بڑھاتے ہیں“ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے معاملات میں باباؤں کا ہاتھ ہے۔ [الکھ نگری از ممتاز مفتی ] علامہ محمد اقبال داتا گنج بخش کے افکار و تعلیمات سے بے حد متاثر تھے۔ داتا صاحب پر لکھی فارسی نظم میں اقبال نے کہا: “در زمین ہند تخم سجدہ ریز ” یعنی علی ہجویری نے سر زمین ہندوستان میں سجدہ کا بیج بویا۔ حضرت داتا گنج بخش کی لاہور آمد اس انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا۔ مشہور انگریز مصنف آرنلڈ نے اپنی کتاب Preaching of Islam میں لکھا کہ علی بن عثمان ہجویری کی دعوت سے لاکھوں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ ہندوستان میں انگریز حکومت کے اوائل میں جب ضلعی گزیر مرتب کیے گئے اور مختلف قبائل کے حالات کی تدوین کے ضمن میں یہ سوال سامنے آیا کہ یہ لوگ کب مسلمان ہوئے تو اس حقیقت کا انکشاف ہواکہ ان تمام قبیلوں نے کسی نہ کسی ولی اللہ کے دست حق پر اسلام قبول کیا۔
بعد مزید لوگ حلقہ بگوش ِ اسلام ہونے لگے۔حضرت سید علی ہجویری ؒکو جب لاہور میں آئے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو آپ نے اب یہاں ایک مسجد کی بنیادر کھی، یہ سادہ ہی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ بعد میں برصغیر کی خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور اسلام کی اشاعت و تعلیم و تربیت کی بنیاد بنی۔ اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے پر تھی، آج اسی جگہ آپ کا مزار اقدس ہے۔ لاہور میں حضرت سید علی ہجویریؒ عام لوگوں کے اجتماعات سے خطاب کرتے اور اپنے پر اثر وعظ سے گم کردہ راہ انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف بلاتے ۔ جس میں عام طالب علموں ، راہ سلوک کے مسافروں اور طالبان حق کو تلقن رشد و ہدایت فرماتے۔ ہزاروں لوگ آپ کے لیکچر سے عالم ، ہزاروں غیر مسلم مسلمان ، ہزاروں ناقص اہل اور ہزاروں فاسق نیکو کار بن گئے ۔ آپ نے تلقین اور تبلیغ کا کام قلم سے بھی لیا اور دس کتا بیں تصنیف کیں۔ ان میں منہاج الدین، کتاب الفناء والبقاء كتاب البيان الابل العیان، بحر القلوب الرعائتة بحوق اللہ ، اسراالخرق المدنیات، کشف الاسراء اور شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب قابل ذکر ہیں۔ آپ کی تصانیف میں کشف المحجوب کو آفاقی شہرت ملی ۔ حضرت داتا گنج بخش کی تعلیمات اور ان کے نظریات جاننے اور سمجھنے کے لیے ان مکتوبات سے بہت راہنمائی ملتی ہے جو آپ نے مختلف امراء سلاطین مشائخ اولیاء کرام اور دیگر اہل علم ہستیوں کے نام لکھے ۔
شریعت و طریقت کے ہادی، پیکر انسان دوستی واخوت، مبلغ اسلام، نور ہدایت نے 19 صفر 465ھ بمطابق 1072ء کو اس دنیا سے رخت سفر باندھا اور لاہور میں اپنی ہی تعمیر کردہ مسجد کے احاطہ میں مدفون ہوئے۔ ہر سال آپ کا عرس مبارک 19 تا 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2019