Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ

جیتی جاگتی زندگی

دعائیں مشکل سے نکال دیتی ہیں

آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ)زندگی بے شمار رنگوں سے مز ین ہے جو انہیں خوبصورت رنگ  اوڑھے ہوئے ہے ، تو کہیں  تلخ حقائق کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ہے۔ کہیں شیریں ہے تو کہیں نمکین، کہیں ہنسی ہے تو کہیں آنسو۔ کہیں دھوپ ہے تو کہیں چھاؤں،، ہمیں سمندر کےشفاف پانی  کے جیسی ہے تو کہیں کیچڑ میں کھلے پھول کی مانند ہیں قوس قزح کے رنگ ہیں۔ کبھی اماوس کی رات جیسی گنتی ہے۔ کبھی خواب لگتی ہے،کبھی سراب ملتا ہے، کبھی خار دار جھاڑیاں تو کبھی شبنم کے قطرے کی مانند لگتی ہے۔ زندگی پر مسلسل بھی ہے۔ توراحت جان بھی ہے، ز ند کی ہر ہر رنگ میں ہے ، ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی ہے، کہانی کے صفحات کی طرح بکھری پڑی ہے۔کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”استاد توسخت ہوتے ہیں لیکن زندگی استاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے، استاد سبق دے کے امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے بڑے بڑے سبق سیکھتا ہے۔

زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے، کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کہ ہنستا ہے یا شرمندہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں زندگی انسان کو مختلف انداز میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔

اب تک زندگی ان گنت کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں، ان میں سے کچھ ہم صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔  دعائیں مشکل سے نکال دیتی ہیں ہم دو بھائیوں اور ایک بہن نے اپنے دادا دادی کی سرپرستی میں بچپن گزارا۔ ہماری والدہ ماجدہ اس وقت انتقال کر گئیں جب میں صرف پانچ برس کا تھا۔ بھائی بہن دونوں مجھ سے دو اور چار سال بڑے تھے۔ والد صاحب دوسرے شہر میں ملازمت کرتے اور چار چھ ہفتے بعد ہم سے ملنے اور اپنے والد اور والدہ کی قدم بوسی کے لیے ضرور آتے۔ والد صاحب کی عدم موجودگی اور والدہ صاحبہ کے نہ ہونے کے باعث دادا دادی ہم پر  زیادہ توجہ دیتے اور ہماری پل پل کی خبر رکھتے۔ ایک دن میں سائیکل پر اسکول سے واپس آر تھا۔ گھر سے تقریباً آدھ کلو میٹر دور میں نے دیکھ کہ آگے بیل گاڑی جارہی ہے، میں اس کے پیچھے لگ گیا کیونکہ سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ اسے آرام سے پار کرتا۔ اچانک پیچھے سے آنے والا نوجوان بڑی صفائی سے اپنی سائیکل بیل گاڑی کے قریب سے نکال کر لے گیا۔ چند منٹ بعد ایک دوسرے صاحب نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی میری بھی ہمت بندھی مگر جب گاڑی پار کرنے لگا تو نہ معلوم کیوں بیل مجھ سے ناراض  ہو گئے۔ آن کی آن میں ہم کہیں، ہماری سائیکل کہیں اور کتابیں سڑک پر بکھر گئیں۔ میں گر کر بیلوں کے نیچے جا پڑا تھا۔ مجھے لگا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں مگر ہوش و حواس قائم تھے اور نظر آرہا تھا کہ جسم آٹھ پیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ بیلوں کے پیر میرے، سر، سینے اور ٹانگوں کے قریب پڑ رہے تھے۔ میری سٹی گم ہو گئی۔ اگر کروٹ لیتا تو بیلوں کے مضبوط پیر میرے پیٹ یا پیٹھ پر پڑتے، یوں میری آنتیں باہر نکل آتیں یا کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی۔ بیل کافی غصے میں تھے لہذا زور زور سے زمین پر پاؤں مار رہے تھے اور ستم یہ کہ ادھر ادھر ہونے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ جائیں تو جائیں کہاں….؟ اس دوران مجھے پیروں کے کچھ جھٹکے بھی لگے مگر ایک نئی آفت میری منتظر تھی۔ دیکھا کہ بیل گاڑی کا پہیہ میرے سر کے قریب آگیا، اب دیکھیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کہ جب پہیہ میرے سر سے چند انچ دور رہ گیا تو وہ پہیہ اچانک اٹھا اور میرے سر کے اوپر سے ہو کر گزر گیا، یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہو اگر اللہ کی رحمت کے صدقے میرے جسم پر خراش تک نہیں آئی اور میں یوں کھڑا ہوا جیسے خواب دیکھ کر بیدار ہوا ہوں۔ میں نے اپنے کپڑے جھاڑے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ یہ تماشا دیکھنے کئی لوگ جمع ہو گئے اور محلے کے چند بزرگوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ سائیکل کا کچومر بن گیا تھا، کسی نے کتابیں اکٹھی کیں اور مجھے گھر پہنچایا۔ یوں میں دادی اور دادا کی دعاؤں کے  طفیل صحیح سالم گھر پہنچ گیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دادا دادی کی پر خلوص دعاؤں نے مجھے بچالیا ورنہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ رزق حلال زین اور رستم دونوں دوست تھے اور ان کی کاٹھ کباڑ جمع کرتے گزر اوقات ہوا کرتی تھی۔ ایک روز زین کاٹھ کباڑ تلاش کرنے میں مصروف تھا کہ اس کی نظر ایک کوٹھی کے باہر رکھے ڈسٹ بن میں رکھے ایک بند لفافے پر گئی، اس نے جھٹ اسے اٹھا کر ٹولا اور کھولنا چاہا لیکن کوٹھی کے اندر ٹہلتے کتے نے بھونک کر اسے ڈرا دیا۔ زین نے جلدی سے تھیلے کو بوری میں ڈالا اور آگے بڑھ گیا۔ دو پہر تک اس نے پلاسٹک کے تین ڈبے، پانچ ٹوٹی ہوئی شیشے کی بوتلیں، ایک ٹوٹی ہوئی ایش ٹرے، کاغذوں کا ڈھیر ، مومی لفافے اور پھٹے ہوئے کئی کپڑے جمع کر لیے۔ اب زین کو بھوک لگی اس نے ردی کی بوری کندھے پر رکھی اور چوک کی طرف چل دیا۔ وہاں ایک کھوکھے پر رستم اس کا انتظار کر رہا تھا۔ دونوں نے تندور سے روٹیاں اور دال کی پلیٹ خرید کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد دونوں نے اپنا اپنا سامان فٹ پاتھ پر کھول کر مختلف چیزوں کو الگ کیا۔اچانک زین کو پلاسٹک کے تھیلے کا خیال آیا جلدی سے بوری سے نکال کر اس نے اسے کھولااور لفافہ کھول کر اس میں بند چیزیں دیکھنے لگا۔ اندر سے ٹوٹا ہوا آئینہ، بچے کے دودھ پینے کی  بوتل، ٹشو پیپر کے ٹکڑے، کنگھی اور ایک ہار نکلا۔ زین نے ہار غور سے دیکھا اور رستم سے پوچھا یہ ہار تو نیا لگتا ہے۔” نیا ہو تا تو ان چیزوں کے ساتھ نہ ہوتا، لاؤ مجھے دکھاؤ۔“ رستم نے زین کے ہاتھ سے ہار لیا اور پھر بغیر سوچے سمجھے اسے زین کے گلے میں ڈال کر بولا یہ تم پہنا کر وہ بالکل لڑکیوں والا ہار ہے۔“میں یہ اماں کو دوں گا۔“ زین بولا۔ دو نہیں، کباڑیے کو دے دینا، دو تین روپے مل جائیں گے ۔ “ ،،نہیں یار ، یہ گھر لے کر جاؤں گا۔ اٹھو دیر ہو رہی ہے۔دونوں نے اپنا اپنا سامان سمیٹا اور دلاور کے کباڑ خانے کی طرف چل دیے۔ وہ وہاں نہیں تھا، دلاور کے منشی سے دونوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے لے کر گھر کا رخ کیا۔ رات کو زین کی ماں نے چمکتا دمکتا بار دیکھا تو بیٹے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے ملا ہے۔ بیٹے کے بتانے پر ماں نے زمین کے بابا اور اس کی بہن کو بلا لیا۔ سارے لوگ اس بار کو ٹول ٹٹول کر دیکھنے لگے۔ یہ سونے کا ہے اصلی سونے کا….؟“ زین کی ماں بولی “زین! صبح ہوتے ہی وہاں یہ پھینک آنا کہ جہاں سے اٹھایا ہے۔“ تا کہ کوئی اور اٹھالے۔“ زمین تلخی سے بولا۔ نہیں نہیں، یہ ہم اسی کو واپس کریں گے کے جس کی چیز ہے۔“ زین کا بابا بولا۔ زین کی غریب ماں نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا:  ” جس کی چیز ہو اس کے گلے میں اچھی لگتی ہے، خدا ہمیں حرام کھانے سے بچائے۔“

زین کی بہن نے ہار پر انگلیاں پھیریں، سونے و کے خوبصورت ہار میں جگہ جگہ سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے پتھر لگے تھے جو اسے بہت اچھے گے۔ وہ یہ ہار اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی مگر زین کی ماں نے ہار لے کر ایک ڈبے میں بند کیا، اسے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے لگی۔

صبح ہوتے ہی زین اور رستم نے بوریاں کندھے پر رکھیں اور اپنے سفر پر نکلے لیکن اس مرتبہ ان کے ساتھ دو بڑے بھی تھے … یعنی ر ستم کا یا با اور زین کی ماں۔

زین انہیں اپنے ساتھ اس سفید کو ٹھی تک لے گیا جہاں کل صبح اس نے سفید تھیلا اٹھایا تھا۔انہوں نے دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارے، جب اندر سے کوئی نہ نکلا تو دروازے کے ساتھ لگی گھنٹی پر زین نے انگلی رکھ کر زور سے دبائی۔ دو تین مرتبہ گھنٹی بجانے کے بعد اندر سے ایک بوڑھاملازم باہر نکلا اور غصے سے بولا۔ ارے گھر والے سوئے ہوئے ہیں…. تم لوگ صبح ہی صبح مانگنے آجاتے ہو ۔ “ رستم کا بابا زور سے بولا:

ہم مانگنے والے نہیں، حلال کی اور محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔“

تو پھر کیا بات ہے، کس سے ملنا ہے….؟ ملازم نے پوچھا۔ گھر کا مالک کون ہے ….؟ زمین کی ماں بولی۔ وہ اس وقت سو رہے ہیں۔” اسی کو دے دیتے ہیں اماں، یہ مالک کو پہنچادے گا۔ “ زین بولا۔ ناں ناں، اسے نہیں دینا۔“ ماں بولی۔ رستم کے بابا نے اونچی آواز میں کہا، جاؤ جا کر اپنے مالک کو بلاؤ، ہم نے اسے اس کا ہار واپس کرنا ہے۔“

 ہار واپس کرنا ہے! کیا ہار آپ کے پاس ہے…..؟ اوہ میرے خدایا! شکر ہے! سارا گھر

پریشان تھا۔“ چوکیدار زور زور سے بولنے لگا ”مالک نے تو ہار گم ہونے پر بڑی بیگم کو رات بھر سونے نہیں دیا اور چھوٹی بیگم کا رورو کر برا حال ہے۔

کیا بہت قیمتی ہار ہے..؟” رستم بے تابی سے بولا۔ ہاں، بہت قیمتی ہے ، پورے دو لاکھ روپے کا ہے۔ ٹھہر و…. میں ابھی مالک کو بلاتا ہوں۔” ناں، ناں مالک کو نہ بلاؤ، اب تم یہ لیتے جاؤ۔“ زین کی ماں بولی۔اچانک اندر سے ایک آدمی خوبصورت، نرم گرم قیمتی کمبل لپیٹے نکلا اور ان کی طرف آیا۔ سردی سے بچنے کے لیے اس نے اپنا چہرہ چھپارکھا تھا۔ نوکر اسے دیکھ کر جوش کے ساتھ بولا۔ ہار مل گیا جی۔“زین کی ماں نے ہار اس آدمی کی طرف بڑھایا۔ جب وہ آدمی بار لینے کے لیے آگے بڑھا  اور اور ہاتھ کمبل سے باہر نکالا تو اس کا چہرہ دیکھ کر زین رستم حیران رہ گئے۔

وہ دلاور تھا، کہاڑ خانے کا مالک !

آپ !“ دونوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔اب دلاور نے سامنے کھڑے افراد کو دیکھا،زین اور رستم کو پہچان کر جیب سے سو روپے کانوٹ نکالا اور بولا۔ یہ لو سوروپے! اگر کباڑ خانے آتے تو پچاس روپے ہی ملتے مگر گھر آنے کی وجہ سے پچاس زیادہ دے رہا ہوں۔ شاباش۔“

زین اور رستم نے صبح صبح اتنی بڑی رقم دیکھی تو بڑی خوشی محسوس کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر انعام لیتے زین کی ماں بولی۔ناں جی ناں ، ہم تو امانت واپس کرنے آئے ہیں، ہمیں پیسے نہ دو۔“

اوہو …. رکھ لو …. بچوں کو دے دو اور ہاں، اگر آئندہ ایسی کوئی چیز ملے تو سب سے پہلے اسے لے کر میرے کباڑ خانے آیا کرو۔ یہ لو، شاباش۔“ لیکن زین کی ماں نے نوٹ نہیں لیے اور بولی ہم غریب لوگ ہیں، میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے مفت کا مال کھائیں۔ ہم انہیں رزق حلال کی تاکید کرتے ہیں انہیں حرام کی عادت لگ گئی تو کسی کام کے نہیں رہیں گے ۔ “ یہ کہہ کر ماں نے اشارہ کیا اور سب وہاں سے چل پڑے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019

Loading