جوگمان کیا وہ پالیا
انتخاب۔۔۔احمد نواز فردوسی (ہالینڈ)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انتخاب۔۔۔احمد نواز فردوسی ہالینڈ)میں بات کرتا ہوں تو میرے چہرہ کے آگے کچھ نہیں ہے،
ہونا یہ چاہیئے کہ آواز فضا میں بکھر جائے اور واپس نہ آئے۔ لیکن جب ہم بات کرتے ہیں تو اپنی آواز خود بھی سنتے ہیں۔۔۔
“#آواز” کیا ہے _؟؟ آواز کس چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے _؟؟
ان جملوں کو ٹھہر ٹھہر کر 2،3مرتبہ دہرائیں۔ ابتدا میں محض”گونج” تھی۔ اس کے بعد “پھیلاؤ” محسوس ہوا۔ یعنی آواز کے ساتھ متوازی عناصر ہیں۔ جیسے ایک ساتھ کئی لائنیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یعنی آواز ایک لائن نہیں ہے، بلکہ بہت ساری لائنوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے بعد BASE آتا ہے۔ اردو میں BASE کو غلاف سمجھاجائے۔ غلاف یا بیس کی آواز ایسی ہے جیسے ریڈیو میں فریکوئنسی سیٹ کرتے ہوئے”ہس ہس سسس” کی آواز ہوتی ہے۔ یہ “ہس” فریکوئنسی ہوتی ہے جسے ہمارا ذہن “ہس س سس” سمجھتا ہے۔
فریکوئنسی پھیلتی ہے۔ تو پھیلنے یا بازگشت سے آواز واضح سنائی دیتی ہے۔ بازگشت یا ECHO خلا ہے۔ خلا بھی اپنا “وجود” رکھتا ہے۔ جب آواز اس سے ٹکراتی ہے تو ٹکرا کر ہمارے “مادی وجود کے خول”میں ریکارڈ ہوتی ہے۔
الفاظ کچھ نہیں، یہ ہمارے “خیالات” اور اس کا اظہار ہیں۔
“#کن #فیکون” اللہ تعالٰی کا خیال اور اس کی آواز ہے جو عالمین کو وسعت یا پھیلا رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان __ خیال آئے بغیر، یا اسے RECEIVE کئے بغیر؛ اپنا کوئی کام نہیں کرسکتا۔ ہمارا ذہن؛ پہلے خیال ریسیو کرتا ہے اور جسم اس کے بعد اپنا کام کرتا ہے۔
بھوک، پیاس، جنس، غصہ، چاہنا ہر جسمانی تقاضہ خیال کے تابع ہے۔
موت کا خیال وصول کرتے ہی __ انسان مر جاتا ہے.
آسان الفاظ میں __ پھیلنے سے جو کچھ آواز میں ہے، وہ ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی “اسپیس یا مکان” تخلیق ہوتا ہے۔ ہم سب، یہ کائنات، تمام عالمین سب “#زمان و #مکان” یا #TIME&SPACEمیں قید ہیں
اگر خالق یا CREATOR اللہ تعالیٰ کا خیال یا اس کی آواز “#کن” نہ پھیلے تو کیا ہمارا اور اس کائنات کا وجود ہوگا __؟؟
بازگشت یا ECHO کا اک مفہوم “دوری” ہے۔
دوری کو ختم کرنے کے لئے #پیغمبر یا #MESSENGER بھیجے گئے۔ جو ہر انسان کی فریکوئنسی کو #الہامی آواز’ سے سیٹ کرتے ہیں تاکہ وہ “#بہشت” کی SPACE& #TIME سے متعارف ہوجائے!
#جنت یا #PARADISE کا ٹائم اینڈ اسپیس کیسا ہوتا ہے __؟؟
اس کا مشاہدہ ہر کوئی اپنے “#خواب یا #DREAMS” میں روزانہ کرتا ہے۔ جہاں نہ وقت کی پابندی ہے اور نہ زمینی حد بندیاں!
جو چاہا وہ مل گیا۔۔۔ جو گمان کیا وہ پا لیا۔۔۔