کتاب – پت جھڑ کا موسم
تبصرہ ۔۔۔ عیشا صائمہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کتاب – پت جھڑ کا موسم۔۔۔ تبصرہ ۔۔۔ عیشا صائمہ) محمد مجیب احمد” کی کتاب” پت جھڑ کا موسم” جسے دیکھتے ساتھ ہی یہ الفاظ ادا ہوئے” ایک خوب صورت اور موضوع کے حساب سے تخلیق کردہ سرورق کے ساتھ جو تیس افسانوں پر مشتمل ہے اور وبائی مرض کورونا کے حوالے سے مختلف حقیقتوں کو انہوں نے اس خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے کہ ان تمام کہانیوں میں کہیں بھی یکسانیت نہیں بلکہ ہر کہانی میں کرداروں کے دکھ اور کرب کو اس طرح بیان کیا ہے کہ لگتا ہے یہ سارے حالات ایسے ہی بیتے ہیں اور جن پر بیتے ہیں ان کا کرب اتنا زیادہ تھا کہ وہ ان جدائی کے لمحوں میں ہارتے گئے کہیں ان کے حوصلے بہت پست ہوئے تو کہیں اس جدائی نے ان کو ذہنی اذیت سے دوچار کر کے زندگی کی بہاروں سے دور کر دیا لیکن کچھ لوگوں نے ان حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ خود کو مضبوط کرنے کی تگ ودو میں رہے کورونا وبا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ادیب اس کرب کو نہ سمجھ سکے “محمد مجیب احمد” نے اپنی بھر پور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اردگرد موجود کئ خاندانوں
پر بیتی اذیت کو یوں اپنے الفاظ میں قلمبند کیا ہے جیسے وہ خود اس صورتحال سے گزرے ہیں – جہاں کہیں زندگی بہاریں بکھیرتی نظر آرہی تھی لوگ اپنی زندگیوں میں مگن خوشیوں سے لطف انداز ہو رہے تھے لیکن اچانک آنے والی اس آفت نے انسان کو تنہائی اور جدائی کے ایسے درد سے آشنا کیا جس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے پھر آہستہ آہستہ ایک گھر میں رہتے ہوئے اپنوں سے دوری اور جدائی نے انہیں مایوسی کی طرف دھکیلنا شروع کیا خوف کی ایک ایسی لہر تھی جسے
قلم کار نے اپنے مشاہدات کی بنا پر بہت باریک بینی اور اپنے قلم کی جنبش سے
ایسے انداز میں پیش کیا جس کی نظیر نہیں ملتی – وہ اپنے، جن سے ہماری خوشیاں وابستہ ہوتی ہیں ہر وہ پیارا رشتہ جس کے بغیر ہم ایک پل رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے انہیں یوں قید تنہائی دینا اور پھر ان کی جدائی کے بعد ان سے یوں کنارہ کشی اختیار کر لینا جیسے وہ ہمارے اپنے نہیں جیسے کوئی اجنبی ہو، اس اذیت کو قلم کار نے یقیناً آنسوؤں کے ساتھ لکھا ہے بطور انسان ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کیسے اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے –
ایسے میں کچھ لوگ مسیحا بھی بن کر آئے جنہوں نے نہ صرف اپنوں بلکہ پرائے لوگوں کی مدد کا بیٹرا اٹھایا نہ صرف ان کے ساتھ وقت گزارا بلکہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی تجہیز و تکفین میں ایسا مثالی کردار ادا کیا جس نے باقی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا –
“دل مسلم کی ہو یہ تمنا” میں انہی احساسات کو سامنے لایا گیا ہے – باقی افسانوں میں “یقین اور گماں کے درمیاں” گھنی چھاؤں کی رخصتی “
” فاصلے جو شفا ٹھہرے “امید” آؤ زیست کے لئے جیتے ہیں “جانثاری”” درد اپنا اور پرایا “یہ سب افسانے قلم کار کی
اس جنبش کو سلام پیش کرتے نظر آتے ہیں جن میں ناامیدی، مایوسی کے باوجود زندہ رہنے کی جستجو کو کرب و اذیت کے باوجود خوشی کی چھوٹی سی رمق کے لئے زندہ رہنے کو ترجیح دینا ان احساسات کو ایسے ہی قلمبند کرنا کہ قاری خود کو انہی جذبات و احساسات کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتا نظر آئے ایک ادیب کی سب سے بڑی خوبی ہے جسے” محمد مجیب احمد” نے
بڑی ہی باریک بینی اور خوب صورتی سے بیان کیا ہے –
اس کے علاوہ “خوف” ایک ایسی کہانی جس میں وبا اور بھوک کے خوف کو حقیقت مندانہ طور پر بیان کیا گیا –
“فیصلہ” ایسی کہانی جس میں حلال و حرام کی تمیز کو واضح بیان کیا گیا کہ حرام ہر صورت میں حرام ہے چاہے ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو جبکہ حلال رزق آپ کے لیے دنیا و آخرت میں نجات کا موجب بنے گا –
” خزاں کے بعد آئی بہار “ایک ایسی کہانی جس میں خوف ومایوسی کے بعد زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹنا اور
زندگی کی خوب صورتیوں سے بھر پور مزہ لینا انسان کی جبلت میں ہے اسی چیز کو مصنف نے اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے –
سب سے اہم کہانی جس پر کتاب کا نام رکھا گیا” پت جھڑ کا موسم” اس میں ایک جملہ قاری کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور اسی پر ہماری ساری زندگی کا انحصار ہے “اگر ہم موجودہ حالات کے مطابق خود کو نہیں ڈھالیں گے تو تب تک ہم کامیاب اور صحت مند زندگی نہیں گزار سکیں گے ہمیں وقت اور ماحول کے ساتھ بدلنا ہو گا جو کہ موجودہ تبدیلیوں کے لئے ناگزیر ہے” یہ الفاظ ایسے ہیں جو ہماری پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں اگر ہم خود کو وقت اور حالات کے مطابق نہیں بدلتے تو پھر زندہ رہنامحال ہو جاتا ہے –
صرف یہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے ہر طبقے سے منسلک ان کے درد و کرب کو ایک کہانی کی صورت میں پیش کر کے قاری کا دل جیت لیا بلکہ وبا کے حوالے سے لکھے گئے ان کا یہ افسانوی مجموعہ ورلڈ ریکارڈ قائم کر گیا –