کتاب صدائے جرس
سے اقتباس (قسط نمبر1)
تحریر۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی،نگران مراقبہ ہال ہالینڈ)یہ دور علم کا دور ہے۔ آنکھ کا اندھا بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ زمانے کی ساری ترقی تحقیق اور ریسرچ کے اوپر قائم ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ واضح طور پر انکشاف کرتی ہے کہ جن قوموں نے جدو جہد کر کے علمی خزانوں سے استفادہ کیا وہ ترقی کے مینار تعمیر کرتی رہیں اور جو قو میں علمی خزانوں سے تہی دست ہو گئیں ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
چودہ سو سال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی ہوئی تھی۔ ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی کوئی خلاف عقل بات نہ تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی۔ اشرف المخلوقات نے انسانی حدود کو پچھلانگ کر حیوانیت کو اپنا کر اللہ کے عطا کردہ انعام فی الارض خلیفہ” کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنے محبوب بندے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
اللہ کے اس برگزیدہ مقدس اور مطہر بندے نے عجیب و غریب حیرت انگیز محدود لا محدود رنگ رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا کہ زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہو گئی۔ قرآن نے بتایا:
”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ( ہر وں میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) اے پروردگار تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک ہے تو (قیامت کےدن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو ۔ “ [ آل عمران۔ 190-191]
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا اور (کیونکر) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ اور زمین کو (دیکھو اسے) ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اگائیں۔ تاکہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔“ سورۂ ق (50): آیت (8-6)
عربوں پر علم و دانش آشکار ہو گئی اور جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہو گئے تو علم کے متعدد ان کی تحقیقات سے نمایاں ہوئے۔ مسلمان سائنس دانوں کی، عالموں کی تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ دانشور مسلمان ہیں جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم شمعیں روشن کیں۔مسلمانوں نے عالم میں اس وقت روشنی پھیلائی جب دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان میں عبد المالک اصمعی ، محمد بن موسیٰ الخوارزمی، علی ابن سہیل ربان الطبری، ابو القاسم عباس بن فرناس، ثابت ابن قرة، ابو بکر محمد بن زکریا الرازی ابوالنصر الفارابی، ابوا بوالحسن المسعودی، ابن سینا کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم بنیادر کھی۔ عربوں سے پہلے یورپ، سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ البتہ یونان میں کسی قدر علم موجود تھا۔ مسلمانوں میں علمی تحقیقات اور نئی نئی دریافتوں کی طرف رغبت پیغمبر اسلام صلی علیم کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ قرآن پاک نازل ہونے کے بعد سر زمین عرب جب علم کی روشنی سے منور ہوئی۔ اس وقت مغربی ممالک میں تہذیب و تمدن کا کوئی نشان نہ تھا۔ قرآن آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے آراستہ کر دیا۔ مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ عرب نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امت مسلمہ قرآنی تحقیق و تفکر سے دور ہو گئی۔ اس کے نتیجہ میں مسلمان قرآن کے انوار و حکمت سے دور ہو گئے پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ تسخیر کائنات جو قرآن کا عطا کر وہ علم ہے اس کی طرف سے توجہ ہیٹ گئی اور عالم اسلام اس شعور محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطا کیا تھا۔ جب کوئی قوم تفکر، تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور علی نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گرو ہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور اس کی اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور سے چاہے چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور تو ہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے۔ [ آل عمران (3): آیت 26-27]
جس طرح رات اور دن طلوع اور غروب ہوتے رہتے ہیں اس طرح اقتدار بھی اقوام عالم میں رد و بدل ہو تا رہتا ہے۔ بابل اور مصر کی تہذیبیں اپنی پوری آن بان اور شان و شوکت کے باوجود زمیں روز ہو گئیں۔ تہذیب کا آفتاب کبھی مشرق پر چمکتا تھا، پھر یونان علم و آگہی کا مرکز بن گیا۔ پھر یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت روم وجود میں آگئی۔ آفتاب تہذیب پھر پوری طرح مغرب پر چمکنے لگا کچھ عرصے بعد ایران نے زندگی کی ایک نئی انگڑائی لی۔ یہاں تک کہ ریگستان عرب سے علم و عرفان کے بادل اٹھے۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019