البیرونی کی زندگی
تحریر۔۔۔محمد ضیاء الحق انصاری
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ البیرونی کی زندگی۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد ضیاء الحق انصاری)البیرونی کا اصل نام ابوریحان محمد تھا اور عربوں کے قدیم قبائلی سماجی رسوم کے بموجب اس کے والد کا نام احمد اس کے نام کے آخر میں آویزاں ہو گیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائے اس کے والد کے نام کے کوئی اور ذکر اس کے نسبی سلسلے میں نہیں ملتا ۔ جو خال خال ذکر ملتے ہیں ان سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ البیرونی ایک دیہی سماج کا پروردہ تھا۔ وہ خوارزم موجودہ ازبکستان کا رہنے والا تھا اور اس کی پیدائش بروز جمعرات بتاریخ( ۳ ذی الحجہ ۳۶۲ھ) قبل از دو پہر عمل میں آئی تھی۔ گری گری کیلنڈر کے مطابق یہ تاریخ (۴ ستمبر ۱۹۷۳ء) ہوتی ہے البیرونی کی تاریخ پیدائش کی صحت پر کسی قسم کے شک و شبہ کا سوال نہیں اٹھتا اس لیے کہ اس زمرے میں اس کی خود نوشتہ شہادت موجود ہے ۔ اس نے ایک جگہ اپنے تخلیقی کاموں کی فہرست دیتے ہوئے ضمنا اپنی عمر کا ذکر کیا ہے جس سے اس کی تاریخ پیدائش کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے :
تم مجھ سے ان کتابوں کے ناموں کی تفصیل دریافت کرتے ہو جو میں نے ۲۲۷ھ (جواب کی تاریخ تک تخلیق کی ہیں ۔ میری عمر اس وقت ماہتابی مہینوں کے مطابق 65 سال اور آفتابی مہینوں کے مطابق 63 سال ہے .
اس بیان کی روشنی میں البیرونی کی ولادت کا سال ۳۶۲ ھ نکلتا ہے پھر بھی اصل وقت پیدائش کے دن اور ماہ کا مسئلہ رہ جاتا ہے ۔ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد الغضنفر التبریزی کی تحریر کے بموجب وقت پیدائش جمعرات کی صبح مطابق ذی الحجہ رکھی جاسکتی ہے البیرونی کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا اور یہ سانحہ اس کی زندگی میں اتنا اہم تھا کہ اس نے نہ صرف اس کی زندگی کو ایک نئی راہ دکھائی بلکہ اس کو خود کفیل اور خود مختار بنانے میں خاص اہم رول ادا کیا ۔ ہمیں اس کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے کسی معاشرتی مذہبی قومی یا سماجی گروہ کے خلاف تعصب یا غیر اعتدالانہ رویہ اس نے اپنائی ہو۔ ہر گروہ اور ہر مذہبی فرقہ اس وقت تک اس کو عزیز تھا جب تک کہ وہ علم حاصل کرنےکا ایک ذریعہ تھا وہ غیر اعتدالی قدامت پرستی اور ان جذباتی بندھنوں سے آزاد تھا ۔ جو کبھی کبھی مسلم اور معروف محققوں کے ذہنوں پر بھی حاوی رہتے ہیں ۔ یہ خوبیاں کچھ ایسی تھیں کہ جنھوں نے البیرونی کو ایک عالمی شہری کا درجہ عطا کر دیا تھا ۔ اس کے خیالات میں وسیع النظری
اور ماحول سے عدم تاثری اور غیر دلچسپی انھیں وجوہات کا نتیجہ تھی کہ البیرونی نے ایک طویل عمر پائی اور تقریباً ایک صدی کا تین چوتھائی حصہ صحت مند
زندگی کے ساتھ گزارا ۔ اس کی وفات غزنی میں بروز (جمعہ رجب ۴۴۰ھ)بمطابق (دسمبر 1038ء) کو ہوئی ۔ کچھ محققین اس کی وفات کی تاریخ (۳ رجب۴۴۰ھ ) بمطابق (13 دسمبر 1048) بتاتے ہیں جبکہ میر ہاف سن وفات (1050ء) شمار کرتا ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ تحریر ہے کہ امام فاضل السرخسی جو البیرونی کا ایک عزیز شاگر د تھا اس کی خود نوشتہ تحریر میں ایک کتاب کے حاشیہ پر درج ہے کہ ابوریحان کی وفات جمعہ کے دن (۲ رجب ۴۴۰ھ) کو شب کے اول وقت کے بعد ہوئی ۔ معجم الادباء میں یا قوت- البیرونی کی وفات کی تاریخ ۴۰۳ھ گرداننے میں یقیناً غلطی پر ہے ۔اس لیے کہ اس بات کے تاریخی مشہور دستیاب ہیں کہ ۴۰۷ھ میں جب محمود غزنوی نے خوارزم پر حملہ کیا تو وہ المامون کے دربار میں موجود تھا۔ دراصل بھارت کے متعلق البیرونی کی بیشتر کتابیں بھارت کے غزنوی سلطنت میں شامل ہونے کے بعد لکھی گئی ہیں۔ یہ بھی امر غیر متنازل ہے کہ البیرونی محمود غزنوی کی موت کے وقت (۴۲۲ھ) میں حیات تھا اور یہی نہیں کہ اس نے غزنوی تخت پر سلطان مسعود کی تاج پوشی دیکھی بلکہ نئے شہنشاہ کی خوشنودی کے لیے سب سے معرکۃ الآراء کتاب القانون المسعودی ۴۲۱ھ اور ۴۲۷ھ کے درمیان لکھ کر منسوب کی ۔ اور جیسا کہ حقائق بتاتے ہیں سلطان مسعود البیرونی کا سب سے بڑا کرم فرما ثابت ہوا ہے ۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر معجم الادباء میں تحریر کردہ تاریخ غلط ہے ۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے البیرونی خوارزمی باشندہ تھا۔ وہ اس کے ایک شہر کات میں پیدا ہوا تھا جو اس وقت خوارزم کا دارالخلافہ تھا اور اب خیوا کے نام سے ازبکستان میں واقع ہے ۔ اس کے نام میں البیرونی کا ضمیمہ عرب کے پرانے رسوم کے مطابق اس کی اصل جائے سکونت کو ظاہر کرتا ہے لیکن چونکہ خوارزم کے قرب وجوار میں کوئی بھی مقام بیرون کے نام سے نہیں پایا جاتا اس لیے کچھ محققین نے اسے سندھ کا نواسی بتایا ہے جہاں ایک شہر نیرون کے نام سے آباد تھا ۔ یہ ماہر ” بیرون ” کو ” نیرون” کا متبادل سمجھتے ہیں اس لیے کہ عربی اور فارسی رسم الخط میں نقطہ کے مقام کی ذراسی تبدیلی نیرون کو بیرون میں بدل سکتی ہے ۔ البیرونی کی سنسکرت دانی ، اس کا ہندوستانی فلسفہ اور ادب سے بجھنے والا شوق اور سند دستان میں اس کی طویل تقریبا تیس سالہ رہائش کچھ ایسے عوامل تھے کہ جنھوں نے محققین کی نظر میں اس کو ایک ہندوستانی بنا دیا ۔ ایسے تمام دعوے کچھ نہ کہتے
ہوئے بھی یکسر بے بنیاد ہیں ۔
سامانی نے اپنی کتاب الانصاف میں جو البیرونی کی وفات کے تقریب ایک صدی بعد
لکھی گئی بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ بیرونی کا مفہوم خوارزم کے جوار سے باہر سے ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوارزم میں مستقل سکونت نہیں اختیار کیے ہوئے تھے اور اس کے باہر رہ رہے تھے ۔ خوارزمی زبان میں ایسے حضرات کو اپیزک ” کہا جاتا تھا۔ البیرونی کا لفظ نام میں اسی امر کی تشریح کرتا ہے ۔ معجم الادباء میں یا قوت بھی اس خیال کی تائید کرتا ہوا ملتا ہے۔ توریا کا بھی یہی خیال ہے ۔ ایک مزید اس بات کا ثبوت کہ البیرونی خوارزم کا باشندہ تھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں کتاب الحدید میں درج ہے جہاں وہ کہتا ہے اس دن کے بعد (۳۸۴ – ۶۸۵ کے درمیان جیحون کے مغرب میں واقع ایک گاؤں کے منتہا ارتفاع کو دریافت کرتے وقت) خوارزم کے دو جاگیر داروں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کام کو روک دینا پڑا اس لیے کہ مجھے پناہ لینی پڑی اور تب مجھے اپنی حفاظت کی
خاطر اپنے آبائی وطن میں سکونت سے ترک وطن کرنا پڑا
البیرونی ایک پروقار شخصیت اور سادگی کا ایک مجسمہ تھا علم کے حصول سے زیادہ کوئی اور شے اسے عزیز نہیں تھی۔ سائنس اور سچ کی تلاش اسے کشاں کشاں لیے پھری یہاں تک کہ اس کاوش میں اس نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور اس کے قدموں پر سارے مادی مفادات نچھاور کر دیے ۔ وہ ایک کنواری زندگی گزارنے پر بھی قانع ہو گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی زندگی میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی جب وہ اپنے اس فیصلہ پر افسوس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہو۔ البیرونی ایک مسلمان تھا اور شعیت کی طرف مائل تھا۔ وہ ایک خدا تر سیدہ انسان تھا مگر یہ وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ اپنی روز مرہ زندگی میں کہاں تک وہ مذہبی رسوم کا پابند تھا۔ ہم یہ ضرور اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مرد تھا۔ اس نے ہمیشہ مذاہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنی ساری زندگی اس مسلک پر عمل پیرا رہا کہ دوسرے مذاہب میں جو بہتر حقائق ہوں انھیں کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے ۔ یہ وسیع النظری اس کی علمی تخلیقوں کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ چاہے وہ آثار الباقیہ” ہو جہاں وہ تمام مذاہب اور ان کے پیروں کے طور طریقوں اور دیو مالاؤں کا موازنہ کرتا ہے یا اپنی کتاب الہند میں جہاں تک اس کا واحد مقصد ہندستانی فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنا ہے اگر چہ وہ ہندو فلسفہ اور عقائد ورسوم کو اپنے سے مختلف پاتا ہے پھر بھی ایک غیر جانبدار رویہ اختیار کرتا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مورخوں کی آنے والی نسلیں اس کی دیانت داری پر نکتہ چینی کریں ۔البیرونی کی شخصیت کا یہی تیکھا پن اور بالغ النظری اس کے علمی مشاغل کا اہم جز ہیں ۔ البیرونی کی زندگی کے ذاتی پہلوؤں اور عادتوں کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں تاریخی دستاویزات اس پہلو پر زیادہ روشنی نہیں ڈالتی ہیں۔ ایک ہی ذریعہ یا قوت کی معجم الادباء ہے جہاں البیرونی کو خوش اطوار – بیباک اور پاکباز بتایا گیا ہے ” اشهر زوری نے اخبار الحکما میں البیرونی کی تصویر کشی ایک بزرگ پستہ قد شخص کی صورت میں کی ہے ۔
منقول