چیونٹی ملکہ
)قسط نمبر(1
تحریر۔۔نعیم قریشی(M.A. Islamic Studies)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست 2013
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل ۔۔۔چیونٹی ملکہ)حضرت سلیمان حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے اور جانشیں تھے ۔ تقریباً چالیس سال فرمانروا رہے ۔ حضرت سلیمان کو اللہ نے حیوانات کی بولیاں سمجھنے کا علم عطا کیا تھا ۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان جن وانس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے جلوس میں کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے۔ لشکر کی کثرت کے باوجود کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اپنے درجے اور رتبے کے خلاف آگے پیچھے ہو کر بے ترتیبی کا مرتکب ہو سکے ۔ سب فرما نبردار لشکریوں کی طرح حضرت سلیمان کی عظمت اور ہیبت سے اپنے اپنے قرینے سے فوج در فوج چل رہے تھے کہ لشکر چلتے چلتے ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بہت ساری تھیں اور پوری وادی ان کا مسکن تھی، چیونٹیوں کی ملکہ نے کثیر اور عظیم الشان لشکر دیکھ کر اپنی رعایا چیونٹیوں کو حکم دیا کہ: تم فوراً اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ سلیمان اور ان کے لشکر کو کیا معلوم کہ تم اس کثرت سے وادی کی زمین پر چل رہی ہو نہیں معلوم ان کے گھوڑوں اور لشکر کے قدموں کے نیچے آکر تم میں سے کتنی چیونٹیاں بے خبری میں ہلاک ہو جائیں ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے: اور بے شک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم بخشا اور ان دونوں نے کہا تعریف ہے اللہ کے لئے جس نے ہم کو بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی اور داؤد کا وارث سلیمان ہوا، اس نے کہا اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہمارے لئے ہر شے مہیا کر دی گئی ہے بے شک یہ کھلا ہوا فضل ہے اور جمع ہوالشکر سلیمان کے لئے جن وانس، پرندوں کا اور وه درجه به درجه ایک نظم و ضبط کے ساتھ آگے پیچھے چل رہے تھے یہاں تک کہ وادی عمل میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے، چیونٹی کی یہ بات سن کر سلیمان ہنس پڑے اور کہا، اے پروردگار! مجھے توفیق دے میں تیرا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں نیک عمل کروں جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے اور مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔۲۷:۱۶۔۱۹
حضرت سلیمان نے اس چیونٹی کو اٹھایا اور اپنی ہتھیلی پر رکھا اور پوچھا:بتا تیری سلطنت بڑی وسیع ہے یا میری سلطنت بڑی ہے؟“
چیونٹی نے کہا: کس کی سلطنت پر عظمت ہے یہ اللہ کو معلوم ہے مگر اس وقت میرا تخت سلیمان کا ہاتھ ہے۔“ چیونٹی جیسی انتہائی چھوٹی مخلوق کی عقل کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ چیونٹی جیسی منفی مخلوق کا اپنا ایک طرز معاشرت ہے ۔ اس ننھے سے کیڑے میں وہ تمام نظام ہائے زندگی موجود ہیں جو حضرت انسان کی زندگی میں داخل ہیں ۔ چیونٹیوں کا خاندان ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں مختلف شکل اور رنگ وروپ کی چیونٹیاں ہوتی ہیں پوری آبادی میں اس یہ کا حکم چلتا ہے اور ہر رکن اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ آبادی میں فنکار چیونٹیاں بھی ہوتی ہیں ، انجینئر زبھی ہوتے ہیں ، ماہر باغبان بھی ہوتی ہیں۔ چیونٹی میں نر اور مادہ دونوں ہوتی ہیں لیکن ملکہ کے سوا کےکوئی اور چیونٹی تولید کا کام انجام نہیں دے سکتی ۔ اگر اتفاقا ملکہ مر جائے تو شہد کی مکھی کی ملکہ کی طرح نئی ملکہ کا تقرر نہیں ہوتا بلکہ دوسری کالونی میں ضم ہو جاتی ہے ۔ چیونٹیوں کی کالونی تقسیم کار کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے ۔ مختلف شکل وصورت کی چیونٹیوں میں کام تقسیم ہوتا ہے ۔ اور سب فرائض کی تکمیل پوری دیانت سے انجام دیتی ہیں۔ کارکن غذا مہیا کرنے اور نئی نسل کی پرورش کی دیکھ بھال کرنے کا کام کرتی ہیں مزدور چیونٹیاں بار برداری کا کام کرتی ہیں ۔ نرنسل شوہر کے فرائض پورے کرتے ہیں اور ان کا وجود اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک ملکہ حاملہ نہ ہو جائے ۔
اس کے بعد یہ رفتہ رفتہ ختم ہو جاتے ہیں۔ مٹھاس بھری چیونٹیاں: بہت سی چیونٹیاں اپنی خوراک پتوں پر پلنے والے کیڑوں ( بھڑوں ) سے حاصل کرتی ہیں اس میں چینی کی کافی مقدار ملتی ہے چیونٹی بھڑ کے قریب جا کر اپنا اینٹینا اس کے پیٹ میں چھوتی ہے اور وہ اس مٹھاس“ کا ایک قطرہ خارج کرتی ہے۔ ایک چیونٹی ایک وقت میں تین قطرے مٹھاس حاصل کرتی ہے۔ مٹھاس حاصل کرنے سے استعمال ہونے تک کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہے۔ کچھ چیونٹیاں ایسی ہیں جنہیں بطور مرتبان استعمال کیا جاتا ہے۔ مٹھاس اکٹھا کرنے والی چیونٹیاں بستی میں واپس آکر اسے ان نوجوان کارکنوں کے حلق میں انڈیلتی ہیں جنہیں مرتبان کا کام انجام دیتا ہے ۔ کچھ مٹھاس ان کے اپنے کام آجاتا ہے اور بقایا ذخیرہ ہو جاتا ہے۔ ان کی جسامت بڑھنے لگتی ہے اور بعض اوقات چھوٹے انگور کے برابر ہو جاتی ہیں۔ اس چیونٹی – میں اپنے وزن سے آٹھ گنا زیادہ مٹھاس ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں الٹی لٹک جاتی ہے ۔ دوسری -چیونٹیاں ملکہ اور بچے اس کا رس چاہتے ہیں اور یہ بے چاری جذبہ ایثار و الفت میں معلق رہتی ہے تا وقتیکہ مٹھاس ختم نہ ہو جائے۔ باغبان چیونٹیاں: ایک قسم با غبان چیونٹیوں کی ہے ۔ یہ کمال مہارت 1 سے باغوں کی افزائش کرتی ہیں وہ باغ مکان کی = گیلریوں اور خانوں میں لگائے جاتے ہیں۔ چیونٹیوں و کے لئے یہ باغ پھولوں کے باغ کا کام کرتے جے ہیں ۔ اس لئے کہ چیونٹیاں ان باغات کو غذا کے طور پر استعمال کرتی ہیں یہ غذا آبادی کے تمام افراد استعمال کرتے ہیں۔ جنگلات میں درختوں سے گرنے والے پتوں کا پندرہ فیصد یہ چیونٹیاں کاٹ کر اٹھا لے جاتی ہیں۔ ان پتوں پر کھمبیوں کے جنگل اگاتی ہیں ۔ یہ پتے کتر کتر کر اپنے زیر زمین گوداموں میں ان کے ڈھیر لگاتی ہیں اور پھر ان پر کھمبیاں اگاتی ہیں۔اس طرح وہ اپنے لئے پروٹین کا انتظام بذریعہ کاشت کرتی ہیں۔ لیکن ان کھمبیوں کی فصل پر فنجائی (Fungi) حملہ آور ہو کر اسے تباہ کر سکتی ہے۔ اس کا علاج بھی موجود ہے۔ جب چیونٹی پستہ کترتی ہے تو اس میں اپنا لعاب دہن بھی شامل کر دیتی ہے۔ اس لعاب دہن میں ایک اینٹی بائیوٹک مادہ شامل ہے جو فنجائی کو اگنے سے روکتا ہے اور دوسری جانب کھمبیوں کی افزائش میں معاون ہے۔ اس نوع کی چیونٹیوں میں کارکنوں کی جسامت درمیانہ ہوتی ہے۔ ان کا سارا وقت پتے کتر کر انہیں گھروندوں تک پہنچانے میں صرف ہو جاتا ہے۔ چونکہ انہوں نے جبڑوں میں پتوں کے ٹکڑے پکڑے ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے اپنا دفاع مشکل ہوتا ہے۔ ان درمیانہ جسامت کارکنوں کے ساتھ ہمہ وقت ایک چھوٹی جسامت کی محافظ چیونٹی چلتی ہے۔ اس چیونٹی کی دشمن ایک خاص طرح کی مکھی ہے۔ یہ کھی موقع پا کر کارکن پتہ کاٹ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013