Daily Roshni News

برف کا آدمی۔۔۔کلام ۔۔۔۔ فرخندہ شمیم

برف کا آدمی

کلام ۔۔۔۔ فرخندہ شمیم

زیادہ پرانی کہانی نہیں ہے

ابھی اس دسمبر کی جاتی رتوں میں

جمی برف کی یخ سلوں نے اچانک

ہواوں کے پیکر مقفل کیے تھے

میں اک آدمی برف کا بن رہی تھی

اچانک ہوا سرسراتی کو جانے کہاں سے کنایہ  ملا

کہ اس نے میرے شوخ آنچل کی دہکی شفق کو

مرے جسم سے یوں الگ کردیا

جیسے شبنم کو گل سے جدا کر دیا

اک جھپاکا ہوا

اور ساتھی نے بڑھ کر مری مانگ میں اک شرارا بھرا

میں حیا بار سی

پرسکوں آبنوسی فضا میں بہکنے لگی

برف انساں کی مٹی دہکنے لگی

پھر زمانہ گیا

حال ماضی ہوا

سارے موسم مری آنکھ میں بجھ  چکے تھے کہ

یک بارگی

اس دسمبر میں پھر سے مرے جسم نے کوئی دستک سنی

ایک آہٹ تھی جس نے بتایا مجھے

قصہ برف آدمی کا سنایا مجھے

مگر اب پلٹ کر میں دیکھوں کسے

اب تو کوئی ہوا بھی سہیلی نہیں

میری اپنی نہیں

برف کا آدمی تو بنا لوں مگر

اس میں حدت کا موسم پرانا ہوا

اک زمانہ ہوا

اب کہیں بازووں کی توقع نہیں

Loading