Daily Roshni News

حضرت ادریس علیہ السلام۔۔۔قسط نمبر2

حضرت ادریس علیہ السلام

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔حضرت ادریس علیہ السلام ) اجتناب کرنا چاہئے۔ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام ایمان کا حصہ ہے۔ ایام بیض ( ہر قمری ماہ کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخ) کے روزے رکھنا اور زکوۃ دینا باطنی پاکیزگی اور مال و دولت کی محبت سے نجات کے لئے بہترین عمل ہے۔ حضرت ادریش نے اپنی امت کے لئے سال میں چند دن عید کے لئے مقرر فرمائے اور مخصوص اوقات میں نذر اور قربانی دینا فرض قرار دیا۔ حضرت ادریس نے اپنی امت کو یہ بھی بتایا کہ میری طرحاس عالم کی دینی اور دنیاوی اصلاح کے لئے بہت سے انبیاء تشریف لائیں گے ان انبیاء کی خصوصیات یہ ہوں گی: وہ ہر برائی سے پاک ہوں گے۔ فضائل میں کامل ہوں گے اور ستائش کے قابل ہوں گے۔ زمین و آسمان کے احوال سے واقف ہوں گے۔ امراض کے لئے شفاء بخش دواؤں سے واقف ہوں گے۔ کوئی سائل ان کے پاس جا کر تشنہ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول کرے گا ، ان کی دعوت اصلاح کے لئے ہوگی۔ حضرت ادریس نے نوع انسانی کو تین طبقات میں تقسیم کیا۔ علماء، بادشاہ اور رعیت حسب ترتیب ان کے مراتب مقرر فرمائے۔ علماء حق کو پہلا اور بلند درجہ دیا گیا، اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے نفس کے علاوہ بادشاہ اور . رعیت کے معاملات میں بھی جواب دہ ہیں۔

بادشاہ کو دوسرے درجے پر رکھا گیا کہ وہ صرف اپنے نفس اور امور مملکت کا جواب دہ ہے۔ رعیت چونکہ صرف اپنے نفس کے لئے جواب دہ ہے اس لئے وہ تیسرے طبقے میں شامل کی گئی۔ لیکن یہ طبقات نسل و خاندانی امتیازات کے لحاظ سے نہیں تھے۔

 انجیل نیا عہد نامہ ( یہودہ کے خط) میں حضرت ادریس کی ایک پیشین گوئی درج ہے جس میں صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی کردار کشی کرتے ہوئے ان کی بیخ کنی اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے ایک راہبر اور نجات دہندہ کی خبر دی گئی ہے۔ پیشین گوئی جس ہستی کے لئے کی گئی وہ رحمت اللعالمین سید نا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس ہے۔ ان پر افسوس ! کہ یہ قائن کی راہ پر چلے اور مزدوری کے لئے بڑی حرص سے بلعام کی کسی گمراہی اختیار کی اور قورح کی طرحمخالفت کر کے ہلاک ہوئے یہ تمہاری محبتوں کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ کھاتے پیتے وقت گویا دریا کی پوشیدہ چٹانیں ہیں، یہ بے دھڑک پیٹ بھرنے والے چرواہے ہیں، یہ بے پانی کے بادل ہیں جنہیں ہوائیں اڑا کر لے جاتی ہیں، یہ پتھر کے بے پھل درخت ہیں جو دونوں طرح سے مردہ اور جڑے اکھڑے ہوئے ہیں۔ یہ سمندر کی پر جوش موجیں ہیں جو اپنی بے شرمی کے جھاگ اچھالتی ہیں۔ یہ وہ آوارہ گر دستارے ہیں جن کے لئے ابد تک بے حد تاریکی ہے۔ ان کے بارے میں حنوک نے بھی جو آدم سےساتویں پشت میں تھا یہ پیشین گوئی کی تھی کہ: دیکھو! خدا وند اپنے لاکھوں مقدموں کے ساتھ آیا تا کہ سب آدمیوں کا انصاف کرے اور سب بے دینوں کو ان کی بے دینی اور ان سب کاموں کے سبب جو انہوں نے بے دینی سے کئے ہیں، ان سب سخت باتوں کے سبب جو بے دین گنہگاروں نے اس کی مخالفت میں کہی ہیں قصور وار ٹھہرائے۔ (انجیل یہودہ ۱۴، ۱۱) اور ذکر کر کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور ہم نے اٹھا لیا اس کو ایک اونچے مکان پر ۔ (۱۹ : ۵۶-۵۷) بائبل میں ہے: اور حنوک کی کل عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھالیا (کتاب پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۳-۲۴) حضرت ادریس کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی: اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ صبر فتح مندی کی علامت ہے۔ کمر سے باندھنے والے پلکے پر تحریر تھا: حقیقی عید میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مخفی ہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروت میں کمال دین کی تکمیل ہے۔ نماز جنازہ کے وقت ایک پٹکہ باندھتے تھے اس پر یہ جملے تحریر تھے : سعادت مند وہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرتا ہے اللہ کے سامنے انسان کے شفیع اس کے نیک اعمال ہیں۔ حضرت ادریس کی بیان کردہ حکمت اور ان کے علوم پر نظر کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی تفویض کردہ امانت صرف انسان کے پاس ہے۔ امانت، خلافت و نیابت کے علوم اور سخیر کائنات کے فارمولے ان ن کے اندر تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوگئی فارمولوں سے انسان کے اندر ہیں۔ آدم زادان صلاحیتوں کے ذریعے نفع اور نقصان کے دونوں کام کر سکتا ہے ۔ طرز فکر اگر صیح ہے اور انبیاء کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ سے ہم آہنگ ہے تو جو بھی عمل صادر ہوتا ہے یا جو بھی نئی تخلیق سامنے آتی ہے وہ مخلوق کے لئے سکون ، آرام، راحت اور خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ اور طرز فکر اگر محدود ہے ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کسی بھی طرح اجتماعی طور پر یا انفرادی حیثیت سے نوع انسانی کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی طرز فکر میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارا مالک و مختار اللہ ہے۔ ہر شے سے دوسری شے کا رشتہ اللہ کی معرفت قائم ہے۔ انبیاء کرام کی سوچ لا محدود ہوتی ہے اللہ کے فرستادہ بندوں کی طرز فکر سے جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے، انبیاء کرام مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں ، حقیقت میں انتشار نہیں ہوتا ، حقیقت کے او پر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔ حقیقی علوم سے واقف برگزیدہ ہستیوں کے بتائے گئے سٹم پر عمل کرنے سے نوع انسانی کو سکون ملتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی – وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں (۲ : ۲-۳) غیب پر یقین رکھنے سے مراد غیب کا مشاہدہ ہے، یقین کی تکمیل مشاہدہ کے بغیر نہیں ہوتی ۔ بائبل میں اس قدر بیان ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ خدا نے انہیں اٹھا لیا، مگر تلمود میں ایک طویل قصہ بیان ہوا ہے جس کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ حنوک ایک بگولے میں شین رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے۔ زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے ہم مکان بناتے ہیں تو زمین ہمیں مکان بنانے سے منع نہیں کرتی، زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اگا سکیں اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر ھنس جائیں ، سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں، باقاعدہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں الغرض کا ئنات کا ہر جز اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری اور غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک تسخیری عمل ہے جو سب کے لئے یکساں ہے۔ اصل تسخیر یہ ہے کہ آدمی اپنے ارادے کے تحت سمندر سے ، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے استفادہ کرے اور اس سے بھی اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام انگلی سے اشارہ کر دیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔ حضرت عمر فاروق دریائے نیل کو پیغام بھیج دیں: اگر تو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آجاور نہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے۔ اور پھر دریائے نیل کی روانی میں کبھی تعطل نہیں ہوا۔ ایک شخص نے حضرت عمر فاروق سے شکایت کی: یا امیر المؤمنین ! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیچ ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیچ سوکھ جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا جب میرا اس طرف سے گزر ہو تو بتانا۔ حضرت عمر جب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔ حضرت عمر تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ: ” تو اللہ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جبکہ وہ تیری ساری ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ ساری کائنات اللہ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے، کائنات کے تمام اجزاء بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکزیت پر قائم ہیں روحانی علوم کی روشنی میں انسان کے اندر اللہ کی عطا کردہ گیارہ ہزار صلاحیتیں ہیں ہر صلاحیت ایک علم ہے اور یہ علم شاخ در شاخ لا محدود ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  قلندر شعور اگست2013

Loading