آج کی اچھی بات
تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اکتوبر2023
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)زندگی بہار اور خزاں سے آراستہ ہے ۔ بہار میں پھول کھلتے ہیں اور خزاں میں درخت پتوں سے خالی ہو کر نئے پھول پتوں کے استقبال کی تیاری کرتا ہے۔ دونوں موسم آتے جاتے ہیں لیکن درخت قائم رہتا ہے ، پھل لگتے ہیں، ہر پھل میں لا شمار درخت ہیں جو سب کے سب ایک درخت سے منسلک ہیں۔ یہ ایک درخت – ان تمام درختوں کی زندگی کاساز ہے جو بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔
سب نے بانس دیکھا ہے۔ یہ درخت نما گھاس ہے جو شکل میں گول اور اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔ منفرد ساخت کی وجہ سے اس سے سازینے بنائے جاتے ہیں جن میں سب سے ممتاز بانسری ہے۔ قدرت نے بانس کے خلا اور گولائی میں ایسی نسبت قائم کر دی ہے کہ جب بانسری نواز اس کے خلا میں اپنی سانس پھونکتا ہے اور سوراخوں پر مہارت سے انگلیاں رکھتا اور اٹھاتا ہے تو بکھر نے والے ساز سے اندر میں دنیا زیر و زبر ہو جاتی ہے۔ بانسری کی آواز بانس کی زندگی کا ساز ہے۔ جب لکڑی سے بنا ہوا خول اپنے اندر کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ ساز کے تابع ہوتا ہے۔ قارئین! آپ نے بانسری دیکھی ہے۔ اس میں triangle اور circle ہیں۔ تصوف میں ٹرائی اینگل کو تخلیق سے نسبت دی جاتی ہےجب کہ سرکل کی اصطلاح خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی صفت محیط کو سمجھنے کا روحانی زاویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت محیط نے ہر تخلیق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
بانسری کا دہانہ آدھا سرکل یعنی ٹرائی اینگل ہے۔ بانسری نواز جب اندر میں جذبات کی تصویریں (تخلیق) ظاہر کرنا چاہتا ہے تو بانسری کے دہانے ( ٹرائی اینگل) میں سانس پھونکتا ہے۔ تخلیق ایسی شے کے ذریعے ظاہر کی جاتی ہے جو خود تخلیق ہو اس لئے وہ تصویروں کو سانس (آواز) کے ذریعے بانسری کے ٹرائی اینگل ( دہانے) میں منتقل کرتا ہے۔ یہاں سے دائرے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ سانس تصویروں کی لہریں لے کر بانس کی گولائی میں سے گزرتا ہے، ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہو کر آگے بڑھتاہے اور اس حالت میں بانسری سے باہر آتا ہے کہ اس پر دائرہ محیط ہوتا ہے۔ بانسری کے بیان سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ شے (ٹرائی اینگل) دائرے کی وجہ سے قائم ہے اور اس کا مظاہرہ ہمیشہ دائرے میں ہوتا ہے۔ بانسری میں اگر سوراخ نہ ہوں اور ان سوراخوں میں سانس نشیب و فراز میں ظاہر نہ ہو تو ساز بجتا ہے لیکن بے آواز ہوتا ہے۔
نفکر ایک شعار ہے۔ اگر ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس کا کھوج لگاتے ہیں تو مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہوا کا سانس کے ذریعے اندر میں داخل ہونا اور اندر میں سے مخلوط معنی کے ساتھ باہر آنا زندگی ہے۔ بانس کے خول کو اگر ہم آدمی سمجھیں اور اس میں وہ نظام داخل کر دیں جس کو بانس کے نظام سے جانتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب بانس کی طرح خول ہیں اور یہ سانس کا عمل ہے جو زندگی کو نشر کرتا ہے۔
آدمی مٹی سے بنا ہے اور بانسری لکڑی سے بنی ایک فرد ہے۔ لکڑی بھی مٹی کی تخلیق ہے۔ بانسری اور آدمی کی اصل آ م ہے جو سوراخوں پر پر مشتمل ہے۔ بانسری میں بھی سوراخ ہیں۔ جب ان دونوں کے اندر زندگی پھونکی جاتی ہے تو سانس کے ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اکتوبر2023