آج کی اچھی بات
تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اپریل2023
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب) آج کی بات“ کی تحریر بزرگوں اور اساتذہ کرام کو پڑھ کر سنائیے ۔زندگی اطلاع ہے۔ اطلاع کا آغاز کن سے ہوا اور کُن کا سورس خالق کائنات اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے جو ظاہر ہوا تو کائنات بن گیا۔ ازل سے ابد تک جو کچھ ہو رہا ہے ، ہو چکا ہے اور ہو گا، اس کی حیثیت ریکارڈ شدہ اطلاع کی ہے ۔ ریکارڈ کو پڑھنے کی ایک طرز میں زمان غالب ہے اور دوسری طرز میں مکان کا غلبہ ہے۔ زمان میں اطلاع مطلق حیثیت میں ہے جب کہ مکان میں اسے ٹکڑوں (space) میں پڑھا جاتا ہے۔ ان ٹکڑوں کا نام واہمہ ، خیال، تصور ، احساس اور مظاہرہ ہے۔
اطلاع کا مادہ (root word) “طلع” ہے جس کے معنی طلوع ہونا ہے۔ اطلاع روشنی ہے اور روشنی مختلف مقداروں کا مجموعہ ہے۔ ہر دو مقدار کے درمیان فاصلہ ہے۔ سورج غروب ہوتا ہے تو روشن لہروں کے درمیان فاصلہ سمٹ جاتا ہے۔ ہم فاصلے کے بغیر کسی چیز کو نہیں دیکھتے اس لئے روشنی نظر نہیں آتی ۔ ہم کہتے ہیں کہ اندھیرا ہو گیا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو روشنی میں مغلوب فاصلہ غالب ہونے سے کر نہیں طول و عرض میں پھیل جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روشنی کا مظاہرہ ہو گیا۔
طلوع ہونے سے مراد اسپیس کا پھیلنا ہے۔ چوں کہ اطلاع لاشعور سے آتی ہے لہذا لاشعور کے شعور پر ظاہر ہونے کو اطلاع کہتے ہیں۔
لاشعور میں اطلاع ایک حالت میں ہے۔ جب یہ شعور میں داخل ہوتی ہے تو آدمی اسے ٹکڑوں یعنی بدلتی ہوئی حالتوں میں دیکھتا ہے جس سے نگاہ میں الو ژن شامل ہو جاتا ہے۔ آپ نے منشور (prism ) دیکھا ہے۔ سفید روشنی اس میں سے گزر کر رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ کچھ رنگ ہمیں نظر آتے ہیں اور بہت سے اوجھل رہتے ہیں۔ سارے رنگ روشنی میں موجود ہیں اور ہر دو رنگوں میں فاصلہ ہے۔ جب تک روشنی پرزم سے نہیں ٹکراتی، ایک حالت میں رہتی ہے۔ پرزم سے ٹکراتے ہی مغلوب فاصلے نمایاں ہو جاتے ہیں
جس سے قسم قسم کے رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور روشنی چھپ جاتی ہے۔ دماغ پر زم کی مانند ہے۔ لاشعور سے آنے والی اطلاع ( روشنی ) ایک ہے۔ جب روشنی کو دیکھنے کی صلاحیت بیدار نہیں ہوتی تو روشنی آدمی کی بصری صلاحیت کے مطابق درجہ بہ درجہ مغلوب ہو کر رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے یہاں تک کہ روشنی چھپ جاتی ہے اور رنگ گہرے ہو جاتے ہیں۔ آدمی رنگوں سے بنی تصویر دیکھ کر اس درجے کو مظاہرے کا نام دیتاہے۔ در حقیقت اطلاع کے تنزل کا یہ آخری درجہ اسفل سافلین کا مقام ہے۔
دوبارہ سمجھئے ۔ اطلاع اپنے مقام سے نزول کرتی ہے تو پہلا مظاہرہ واہمہ ہے۔ دماغ پر بہت ہلکا دباؤ پڑتا ہے جسے آدمی محسوس نہیں کرتا۔ واہمہ تجلی کا زون ہے اور اُس مقام سے قریب ترین ہے جہاں اطلاع ریکارڈ ہے۔ آدمی کو تجلی کا ادراک نہیں اس لئے اطلاع مزید نزول کر کے خیال کے درجے میں آتی ہے۔ یہ نور کا زون ہے۔ توجہ طلب ہے کہ آدمی خیال کو لطیف جھماکے کی طرح نہایت کم وقت کے لئے محسوس کرتا ہے لیکن دیکھتا نہیں۔ وہ خیال کو تصور کے درجے میں دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ابھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ تصور میں رنگ گہرے ہونے سے خدوخال واضح ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ اطلاع کا مظاہرہ ہو گیا۔ اطلاع کے نزولی درجے دراصل دباؤ میں اضافے کے مراحل ہیں۔ فکر طلب ہے کہ جب تک شے میں پوری طرح ثقل ظاہر نہیں ہو جاتا اور روشنی چھپ نہیں جاتی، آدمی۔۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اپریل2023