Daily Roshni News

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا خطاب۔۔۔(قسط نمبر1)

سلسلہ عظیمیہ کے مرشد کریم

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا خطاب

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بسم الله الرحمن الرحیم۔

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ، رحم و کرم کرنے والا ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔ عالمین کے رب سے مراد یہ ہے کہ ایک عالم نہیں ہے۔ ہماری دنیا جو ہے یہ عالمین میں سے ایک یونٹ ہے ایک حصہ ہے۔ ہر عالم میں مخلوق آباد ہے۔

اللہ کا نظام ہے کہ جب کوئی قوم ، کوئی ملک یا گروہ ایسے اعمال کرتا ہے جو قابل مؤاخذہ ہوں تو کوئی نہ کوئی تنبیہ، بیماری، تکلیف یا کوئی وہا۔ ظاہر ہوتی ہے اور اس کا منشاء میرے نزدیک یہ ہے کہ اپنے اعمال کو درست کیا جائے۔ اور اللہ تعالٰی سے معافی مانگی جائے۔ اللہ تعالی رحیم وکریم ہیں معاف فرمانے والے ہیں۔

لیکن اس وقت صورت حال جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک نادیدہ کیڑے نے ساری دنیا کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اور اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔

یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اتفاقاً ہوئی ہو۔ یہ ہوتا رہتا ہتا ہے۔ بہت ساری عذاب کی صورتیں ہیں جو ہمارے سامنے پغمبران علیهم السلام نے

بیان کی ہیں اور ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مرتبہ ایک نادیده مصیبت ، بیماری، پریشانی اور موت ایسے سامنے آئی ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کی ابھی تک کوئی ایسی دوا ایجاد نہیں ہوئی جسکو ہم یہ کہہ سکیں کہ جو 100 فی صدی آرام دے دے۔

پہلے زمانے میں یہی سب کچھ ہوتا تھا۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے

بزرگ نہا کر، دھو کر ، اچھے کپڑے پہن کر جنگل میں جاتے تھے۔ وہاں_ جا کر عبادت کرتے تھے ۔ اور اللہ سے رو کر، گڑ گڑا کر دعا کرتے تھےاور جو عذاب ہوتا تھا وہ ٹل جاتا تھا۔

خشک سالی کے زمانے میں میں بھی اس طرح ایک اجتماع میں حاضر ہوا تھا۔ تو ہم نے وہاں نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰکی طرف ہم نے رجوع کیا۔ اور جب ہم آخری سجدے میں تھے تو ہمیں ٹھندی ہوا کا جھونکا آیا۔ اور جب نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگی گئی تو اس میں بہت سارے لوگ جو تھے وہ رو رہے تھے، ان کے آنسو بہہ رہے تھے۔ اور ایک بادل گرجا، اور گرج کے ساتھ ہی ساتھ بوندا باندی شروع ہو گئی جیسے کسی نے اس مجھے کے اوپر گلاب چھڑک دیا ہو یا کیوڑا چھڑک دیا ہو۔ تو جب ہم گھر پہنچے تو اس وقت سب لوگ بھیگے ہوئے تھے۔ اور بارش ہو رہی تھی۔ یہ ایک واقع نہیں ہے بہت ہیں۔ اور تمام بزرگ ہمارے دادا، نانا، بابا سب کو یہ معلوم ہے۔ اس حساب سے جو کرونا پھیلا ہے اس میں عذاب کی شکل نظر آتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اس بلا کے نازل ہونے سے ، اس بیماری کے نازل ہونے سے تمام دنیا کا نظام الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔ ہم نے بھی عرس کا یہ پروگرام اس طرح قائم رکھا ہے کہ آپ اپنے اپنے گھروں

میں عرس کا اہتمام کریں۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے دوست ہیں اور صاحب عظمت ہیں۔ ان کا عرس ہم ہر سال اس لئے مناتے ہیں کہ ان کی۔ تعلیمات کو عام کریں۔ دنیا بھر سے لوگ تشریف لاتے تھے پھر یہ پرو گرام بھی ساری دنیا میں سنا جاتا تھا۔ پھر اس مرتبہ اپنے گناہوں کی۔ وجہ سے، لاپرواہی کی وجہ سے، دشمنیوں کی وجہ سے اور شریعت کے خلاف اعمال کی وجہ سے یہ مصیبت نازل ہوئی۔ اور مجبوراً ہمیں عرب ملتوی کرنا پڑا۔ عرس میں ایک کانفرنس بھی ہوتی تھی۔ اس میں سوال جواب بھی ہوتے تھے۔ عرس میں لوگ عبادت بھی کرتے تھے۔ مراقبہ بھی کرتے تھے۔ ذکر و اذکار بھی ہوتا تھا۔ اس کو ملتوی کرنا پڑا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اور ہمارے بزرگوں نے جو پرو گرام ہمیں بتایا ہے اس پر ہمیں عمل کرنا چاہئے تا کہ ہر مصیبت اور پریشانی سے محفوظ رہیں۔

دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم عرس مبارک حضور قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر ہم کرتے ہیں اس میں علمی باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی غور و فکر ہوتا ہے۔ کانفرنسوں میں ایک رہنما ہوتا ہے اور باقی سب لوگ سنتے ہیں۔ اتنی اچھی مجلس جس میں اللہ رسول۔۔۔جاری ہے۔

Loading