ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اگر معلوم ہو کہ یہ سفر آپ کی زندگی کا آخری سفر ہے توآپ کے دل پہ کیا گزرے گی؟کیسا محسوس کریں گے؟ علیسا کارسن جو مریخ پہ جانے والی ہے اور اس کا یہ سفر اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا کیونکہ مریخ پہ وہ چلی تو جائے گی لیکن وہاں سے واپسی کا کوئی انتظام نہیں ہوگا اور اسے اپنی باقی ساری زندگی مریخ پہ ہی گزارنی پڑے گی جہاں پہ وہ اکیلی ہوگی کوئی اس سے بات کرنے والا نہیں ہوگا کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا اور وہ تنہائی میں ہی اپنا وقت گزارے گی اور اس کے پاس جتنا کھانے پینے کا سامان ہوگا وہ استعمال کرتی رہے گی اور اس کے ختم ہونے کے بعد بھوک اور پیاس سے دم توڑ دے گی۔
یہ بھی نہیں پتہ کہ سامان ختم ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دے کیونکہ مریخ کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی کہ وہاں کے موسمی حالات کیسے ہوں گے زمین کی طرح ہی وہاں سخت گرمی،سخت سردی ہوگی یا پھر زیادہ بارشیں ہوں گی؟
کیا وہاں سیلاب بھی آتے ہوں گے؟آئندہ آنے والے دنوں میں کیا کیا تغیرات برپا ہوں گے؟ اور یہ بھی کہ وہاں پہ کوئی جاندار ہوگا یا نہیں؟ سائنس دان طویل عرصے سے یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ مریخ پہ زندگی ممکن ہے مریخ بھی ہماری دنیا کی طرح ہی ہے کافی ساری باتیں اس میں مشترک ہیں ……
زمین کی طرح مریخ پر بھی پودے بیج سے جنم لیتے ہیں اور بڑے ہوتے ہیں آکسیجن چھوڑتے ہیں مریخ کی زمین بھی ہماری زمین کے ہی جیسی ہے وہاں پہ پانی کے آثار بھی موجود ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی ممکن ہو سکتی ہے کہ وہاں پہ پہلے سے انسان یا
کوئی اور مخلوق آباد ہو یہ تب بھی پتہ چلے گا کہ جب کوئی انسان وہاں پہ جائے گا مریخ کے تمام رازوں سے پردہ تب ہی اٹھ سکے گا عرصہ دراز سے سائنسدان اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ مریخ کو بھی زمین کی طرح ہی آباد کیا جا سکے لوگ وہاں جا کے رہ سکیں گھر بنا سکیں اور زمین کی طرح ہی زندگی گزار سکیں۔
جب سے ایٹمی جنگیں شروع ہوئی ہے اس کے بعد سے سائنس دانوں کی یہ کوششیں اور تیز ہو گئی ہیں انہیں لگتا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اٹامک وارز کی وجہ سے یہ دنیا تباہ ہو جائے گی اور اس پہ زندگی کے آثار ختم ہو جائیں گے اس سے قبل ہی وہ مریخ پہ آباد ہونا چاہتے ہیں تاکہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد مریخ پہ جا کے رہ سکے، وہاں پہ ایک پرامن زندگی کا آغاز کر سکے۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے انہیں ایک ایسا شخص چاہیے تھا جو وہاں پہ جائے اور انھیں مریخ کے بارے میں بتائے اور وہاں پہ زندگی کی تلاش کرے۔
علیسہ کارسن پہلی خلاباز ہوں گی جو مریخ پہ قدم رکھیں گی یہ ایک مشکل فیصلہ ہے آپ خود کو علیسا کی جگہ پہ رکھ کے تصور کریں کہ آپ کسی ایسے سفر پہ روانہ ہوں اور کسی سیارے پہ پہنچ جائیں اور وہاں اکیلے ہوں ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے آپ کا رابطہ منقطع ہو جائے اپنے پیاروں بہن بھائیوں، دوست احباب، ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے آپ بچھڑ جائیں ان گلیوں میں جہاں آپ کا بچپن گزرا ہے کبھی نہ جا سکیں اور تنہائی کی زندگی گزارتے ہوئے دم توڑ جائیں۔
کوئی انسان بھی ایسا ہرگز نہیں چاہے گا کہ وہ یہ دنیا چھوڑ دے اور ایسی موت مرے
چاہے وہ زندگی سے کتنا بھی تنگ کیوں نہ ہو لیکن وہ پھر بھی ایسے مشن پہ نہیں جانا چاہے گا لیکن علیسا کارسن نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے اب سے نہیں بلکہ نو سال پہلے سے اس نے یہ فیصلہ کیا جب وہ صرف 13 سال کی تھی تب سے اس نے سوچ لیا کہ وہ مریخ پہ جانے والی پہلی انسان بنے گی تب سے وہ مسلسل خبروں میں ہے اور اب وہ 22 سال کی ہو چکی ہے اور اس کا ارادہ مستحکم ہے وہ بے چین ہے مریخ پہ قدم رکھنے کے لیے…… اسے مریخ پہ جانے کا شوق ہے لیکن اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اسے اپنی زندگی کی قربانی دینی ہوگی اور وہ تحقیق کے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اپنی زندگی قربان کرنے پہ ہنسی خوشی تیار ہے۔
سخت ترین سزا جو جیل میں ہوتی ہے تشدد وغیرہ کرنے کے بعد کوئی قیدی اگر زیادہ تنگ کرے یا وہ سچ قبول نہ کرے تو اسے ایک تنگ سی تاریک کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں پہ کوئی اس سے بات نہیں کرتا کوئی اس کے قریب نہیں ہوتا اور صبح شام دن رات وہ اکیلا ہی ہوتا ہے سخت سے سخت اعصاب رکھنے والا انسان بھی یہ سزا نہیں سہہ سکتا اور کچھ دنوں میں وہ چیخنے چلانے لگ جاتا ہے کہ میں سچ بتاتا ہوں مجھے یہاں سے نکالیں اس سزا کو قید تنہائی کہا جاتا ہے کیونکہ انسان فطرتا سوشل واقع ہوا ہے وہ اکیلا رہ نہیں سکتا انسانوں سے گفتگو کے بنا اس کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے گفتگو نہ بھی کرے تو انسانوں کے بیچ رہ کے ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن یہ قید تنہائی لیکن یہ قید تنہائی علیساکارسن نے اپنی مرضی سے چنی ہے۔
علیسا کارسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ مریخ پہ جانے کا شوق اسے تب سے تھا
جب وہ 10 سال کی تھی اور اس نے تب سے ہی ہوا بازی کی ٹریننگ لینا شروع کر دی اور ذہنی طور پہ تیار ہو گئی کہ وہ فضائی سفر کرے گی13 سال کی عمر میں اسے ناسا نے اپنے مریخ کے فضائی مشن کے لیے چن لیا اس سلسلے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اس کی سلیکشن کس بنیاد پہ ہوئی تو اس نے بتایا کہ اسے جنون کی حد تک شوق تھا کہ وہ مریخ پہ جائے اور اسی شوق کی وجہ سے اس نے فضائی سفر کے متعلق کافی ساری معلومات یاد کر رکھی تھی اور بہت کچھ وہ جانتی تھی اور اس کے علاوہ وہ فضائی سفر پہ جانے کے لیے ہر قدم اٹھانے پہ تیار تھی اس کا جوش اور ولولہ دیکھ کے ناسا والوں نے اسے سلیکٹ کیا اور اس کے بعد اس کی ٹریننگ کا آغاز کر دیا گیا اس نے بہت شوق سے ساری ٹریننگ مکمل کی جس میں اسے پانی کے اندر تیراکی کی ٹریننگ دی گئی زمین پہ بھاگنے کی ٹریننگ دی گئی اور ساتھ ہی کم آکسیجن میں زندہ رہنے کی ٹریننگ بھی دی گئی اس کے علاوہ اس کمرے میں جہاں کشش ثقل کام نہیں کرتی وہاں پہ بھی ہوا میں اڑنے اور خود کو سنبھالنے کی ٹریننگ پہ بھی اسے مکمل عبور حاصل ہوا، پانی پیے بنا زندہ دن تک رہنا، خوراک کم استعمال کرنا،اس کے علاوہ بہت ساری ایسی مشکل ترین مشقیں کروائی گئی جن کا عام حالات میں کسی بھی انسان کے لیے کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے شوق نے ہر مشکل کو آسان کر دیا اور اس نے وہ ساری تربیت حاصل کی اور ناممکن کو بھی ممکن بنانے کے لیے وہ اب تیار ہے اس کا جذبہ اپنی جگہ لیکن اب دیکھیں کہ مریخ کے لیے وہ کب روانہ ہوتی ہے اور اس کا ارادہ تب تک بھی مستحکم رہتا ہے یا وہ اپنا ارادہ بدل دیتی ہے وقت بتائے گا۔
تحریر …… محمد عرفان یون