Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ…خوشی کا احساس صحت مند رکھتا ہے

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

خوشی کا احساس

صحت مند رکھتا ہے۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خوشی کا احساس صحت مند رکھتا ہے)قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات آگاہی دیتی ہیں کہ ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹنے سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خوشی کا احساس بانٹنے سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ صرف اپنی ذات سے متعلق خوشی کے اظہار سے ہی نہیں بلکہ دیگر افراد کی خوشیوں میں کشادہ دلی سے شرکت سے بھی دل شادماں رہتا ہے، یہ عمل اچھی صحت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اچھی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔

تاریخ انسانی میں بڑے بڑے فلاسفر گزرے ہیں جنہوں نے فکری ذرائع سے خوشی و غم کی بنیادیں تلاش کرنے کی کوششیں کیں۔ زمانہ آگے بڑھا تو انسانی زندگی پر غور و فکر کرنے والے لوگ آگئے، جنہیں نفسیات دان کہا جانے لگا۔ انہوں نے بھی ذہن انسانی پر غم و خوشی کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ فلاسفر حضرات نے خوشی کی تعریف کرنے میں عمریں کھپادیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دو کسی شے یا مقصد کے حصول کے بعد ذہن انسانی میں جو طمانیت اور عجیب و غریب گدگدی سی ہوتی ہے وہ خوشی کہلاتی ہے۔“

انسانی تجربہ ہے کہ خوشی اپنے اظہار کے لیے کچھ جسمانی حرکات بھی کرواتی ہے۔ جنہیں ہم مسکراہٹ نہی و قہقہہ وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ انسان جب خوش ہوتا ہے اور ہنستا یا قہقہے لگاتا ہے تو اس کا غم دور ہوتا ہے۔

اس سائنسی دور میں مسکراہٹ پر تحقیق نے کچھ اور بھی آشکار کیا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ہنسنا مسکرانا پیچیدہ امراض سے محفوظ رکھتا ہے، وہ اس طرح کہ اس عمل سے بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے۔ اضطراب اور بے چینی کو اپنے اوپر حاوی کر لینے والے افراد جلد ہی ہو جاتے ہیں جبکہ زندہ دل اور روشن خیال افراد صحت مند رہتے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مسکرانے سے انسان کی قوت مدافعت کا نظام متحرک اور طاقت ور Immune Systemہو جاتی ہے۔

اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد ایک نئی سائنس نے جنم لیا ہے، جسے Psycho کہتے ہیں اس Neuro Immunologyسائنس نے بتایا ہے کہ کیا ہے کہ لوگ اپنی ذہنی حالت کے مطابق یا تو زیادہ بیمار رہنے لگتے ہیں یا بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران کچھ سائنسدانوں نے باقاعدہ طور پر یہ تحقیق شروع کی کہ ہنسنے مسکرانے سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی وجوہات کیا ہیں۔ مغربی ممالک میں ورکشاپس کا سلسلہ شروع ہو گیا، سیمینارز اور کا نفرنسیں منعقد ہونے لگیں۔

تربیتی کورس شروع کر دیے گئے۔ سائنس دان اس بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ برطانیہ میں بھی قائم ہو چکے Laughter Clinics ہیں، جن کے اخراجات اکثر وہاں کی نیشنل ہیلتھ سروس برداشت کرتی ہے۔ اب تک تقریباً تیس ہزار سے زیادہ معالجوں، نرسوں اور ماہرین نفسیات نے ورکشاپس میں شرکت کی ہے۔

برطانیہ کی ایک تجربہ گاہ میں جسے کا نام دیا گیا ہے ، کچھ لوگوں پر LaughLab تجربہ کرنے اور ان کے دماغ کی تصویریں لینے کے بعد دیکھا گیا کہ کوئی مزے دار بات سننے سے مسکرانے یا بننے کے بعد دماغ کے ان حصوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے جن کا تعلق فرحت پیدا کرنے والے کیمیکلز سے ہے۔

سائنسدانوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ مسکرانے اور خوش رہنے سے دل کی دھڑکن میں دس سے میں فیصد اضافہ ہوتا ہے اور ایک منٹ میں ایک اعشاریہ تین حرارے جل جاتے ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ جو گنگ کرنے سے ایک منٹ میں دس حرارے جلتے ہیں، ایک ماہر کا کہنا ہے کا ہر حرارے کی اپنی اہمیت ہے اور ہمیں مسکرانے کی وجہ سے ان تھوڑے تھوڑے حراروں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی صاحب روزانہ پندرہ منٹ دل کھول کر ہنس یا مسکرالیں اور یہ سلسلہ سال بھر جاری رہے تو ان کا وزن چار پونڈ کم ہو سکتا ہے۔

مسکراہٹ کا تعلق دراصل پورے جسم سے ہے ، یعنی مسکراہٹ صرف خوشی کا احساس ہی پیدا نہیں کرتی، بلکہ مختلف اعضاء کو بھی مثبت انداز سے متاثر کرتی ہے۔ جب ہم مسکراتے ہیں تو پندرہ چھوٹے چھوٹے عضلات ہمارے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عضلات کی ورزش کے ساتھ خون کا بہاؤ بھی بڑھ جاتا ہے، جو چہرے کو ہلکی سرخی اور چمک بخشا ہے۔ مسکراہٹ زور دار ہو تو آنسو چھلک پڑتے ہیں اور یاد رکھیے کہ آنسو غم کے ہوں یا خوشی کے ، ان سےدباؤ میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔

زیادہ خوش ہو کر قہقہہ لگانے میں تو اتر کے ساتھ ہاہاہا کی آواز منہ کے عضلات پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔ کیلیفورنیا کے ایک سائنسدان نے اس کا ایک اور دلچسپ فائدہ بھی بتایا، انہوں نے ہنسی اور قہقہوں کے بعد کچھ لوگوں کے لعاب کا معائنہ کیا اور یہ دیکھا کہ اس میں بیماری کا مقابلہ کرنے والے omega! mathcal C ^ b subset CImmunoglobulin in mathbb C گئی ہے۔ کچھ اور تجربوں سے پتہ چلا کہ ہنسنے مسکرانے کے بعد خون میں ایسے خلیوں کی سطح بڑھ گئی جو ہمارے مدافعتی عمل کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

ہنسی یا مسکراہٹ کا مثبت اثر اس نظام پر بھی پڑتاہے، جو ہماری آواز یا گویائی کا نظام ہے۔ ڈایافرام کی حرکت، پھیپھڑوں میں ہوا بھرنا، نکلنا اور ہنسنا یا مسکرانا، ان سب کے لیے یعنی اس پورے نظام صوت کے لیے ایک طرح کی ورزش ہے۔ زور دار ہنسی کے باعث پھیپھڑوں میں معمول کی نسبت زیادہ ہوا آتی اور جاتی ہے ، لہذا خون کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے۔

جب ہم مسکراتے ہیں تو ہمارے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں کچھ دیر کے لیے اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیقی مطالعے میں میری لینڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر امراضِ قلب نے رگوں کی اندرونی سطح پر مسکراہٹ کے اثرات کا جائزہ لیا اور یہ پتہ چلایا کہ جب رگیں پھیلتی ہیں تو ان میں اچھے یا مفید صحت کیمیکل پیدا ہوتے ہیں۔ اس ماہر کا کہنا ہے کہ مسکراہٹ، خوشی اور مزاح سے لطف اندوز ہوتے وقت رگوں کی اندرونی سطح کے پھیلنے سے نائٹرک آکسائیڈ جیسے کیمیکلز پیدا ہوئے جو تھکا (Clots) بننے اور سوزش پیدا ہونے کی مزاحمت کرتے ہیں، جب کہ آزردگی اور افسردگی کے باعث اس سطح کے سکڑنے سے کارٹیسول (Cortisol) جیسے ہارمون پیدا ہوئے جو دباؤ والے ہارمون ہیں۔ یہ صور تحال بعد میں امراضِ قلب کا باعث بنتی ہے۔

مسکراہٹ کا ایک اور فائدہ ہے کہ یہ درد دور کرنے والی دوا کا اثر رکھتی ہے اور جسم میں درد کی برداشت بڑھاتی ہے۔ 1987ء میں یہ نتیجہ ٹیکساس کے ایک ماہر نفسیات نے اپنے تجربے کے بعد نکالا ۔ اکثر ماہرین ہنسی قہقہے اور مسکراہٹ کو ایک ورزش قرار دیتے ہیں۔ ایک ماہر نے تو اسے اندرونی ایر و بک ورزش کا نام دیا۔ یہ ان ضعیف یا بیمار لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے جو ورزش کے لیے باہر نہیں نکل سکتے۔ ایک ماہر نے یہ خیال

بھی ظاہر کیا کہ وہ مشین پر ورزش کر کے دس منٹ میں اپنے دل کی دھڑکن میں جو اضافہ محسوس کرتا تھا، وہ کچھ دیر دل کھول کر ہنسنے مسکرانے سے بھی حاصل ہو جاتا تھا۔

تیز رفتار مشینی طرز زندگی نے انسان کے حقیقی جذبات کو نہایت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی تبدیل شده صور تحال نے خوشی اور مسکراہٹ کے فطری احساس کو تقریباً نگل لیا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی، لالچ اور خود غرضی نے خوش ہونے کی طاقت چھین لی ہے۔ قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات آگاہی دیتی ہیں کہ ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹنے سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خوشی کا احساس بانٹنے سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ صرف اپنی ذات سے متعلق خوشی کے اظہار سے ہی نہیں بلکہ دیگر افراد کی خوشیوں میں کشادہ دلی سے شرکت سے بھی دل شادماں رہتا ہے، یہ عمل اچھی صحت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اچھی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔

قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات کا منشاء انسان کو اس کی فطرت سے قریب کرنا ہے، موجودہ دور کے سائنسی ماہرین کے رائے ہے کہ خوشی کا احساس انسان کو ودیعت کی گئی فطری صلاحیت ہے۔ دیگرصلاحیتوں کی مانند اس صلاحیت کو بھی استعمال نہیں کیا جائے تو انسان خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت ہی سے عاری ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہذا خوش رہیے اور خوشیاں بانٹے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2022

Loading