Daily Roshni News

مختار مسعود بیوروکریٹ تھے اور مصنف بھی

مختار مسعود بیوروکریٹ تھےاور مصنف بھی ،

 وہ دو ہزار سترہ میں انتقال کر گئے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل )مختار مسعود بیوروکریٹ تھے اور مصنف بھی ، وہ دو ہزار سترہ میں انتقال کر گئے لیکن دو ہزار دو میں انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اکٹھی کی جو کہ دس کروڑ روپیہ بنی اور اُسے آزاد کشمیر کی ایک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا اور انہیں سکول بنانے کا کہا ، فاؤنڈیشن نے سکول بنا دیا اور مختار مسعود صاحب کو افتتاح کی دعوت دے دی ، مختار مسعود صاحب نے یہ دعوت تین شرائط کے ساتھ قبول کی ۔

ایک کہ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہو گی ۔

دو کہ افتتاح چھٹی والے دن ہو گا ۔

تین کہ ڈونیشن کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی ۔

یوں مختار مسعود صاحب ایک اتوار کو سکول کے افتتاح کے لئے چلے گئے ، وہ خالی کلاس روم میں گئے ، بلیک بورڈ پر “ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا اور واپس آ گئے ۔

جب کسی نے مختار مسعود صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ سکول کھولنے کے لئے چوکی ( گاؤں ) کا انتحاب کیوں کیا تو مختار مسعود صاحب نے جواب دیا “ میرے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے تھے ، وہ رات چوکی میں رکے تھے اور چوکی گاؤں کے لوگوں نے اُن کی بہت خدمت کی تھی ، اُن کے دادا ساری عمر چوکی کے لوگوں کی تعریف کرتے رہے اور میں اس گاؤں میں سکول بنا کر یہ احسان اتارنا چاہتا ہوں“

یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلا حصہ ڈونیشن ، سادگی اور تشہیر پر مشتمل ہے ، اُس بندے نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ڈونیٹ کر دی اور کسی کے سامنے نام تک لینا گوارا نہیں کیا جبکہ دوسرا حصہ پہلے حصے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ، بڑے لوگ ایسے ہی بڑے نہیں ہوتے ، اُن کے دادا نے ایک رات گاؤں میں گزاری اور ساری عمر اُس گاؤں کی مہمان نوازی کی تعریف میں گزار دئیے جبکہ پوتے نے دادا کی وہ بات پلے باندھ لی اور ساری عمر کی جمع پونجی اُس گاؤں پہ لگا دی ۔ اللہ اللہ

آج ہم کسی غریب کو کچھ دیں بھی تو اُس کی تشہیر چاہتے ہیں ، فوٹو لگتی ہے ، بینر لگتے ہیں ، دوسروں کو واقعات سناتے اُس کا ذکر ہوتا ہے اور ایک وہ تھے کسی کو کان و کان خبر نا ہونے دی ۔

بات کردار کی ہوتی ہے جناب

ورنہ قد میں سائے بھی لمبے ہوتے ہیں۔

منقول

Loading