ٹین ایجزز کے ذہنی نفسیاتی اور طبی مسائل
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) محض خیالی دنیا میں گزر جاتا ہے۔
بلوغت کے دور میں قدم رکھنے والے اکثر بچوں اور بچیوں میں ہارمونز کے زیر اثر صنف مخالف کی جانب کشش کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ نو بالغ جوں جوں بلوغت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں اس حوالے سے پسندیدگی کے جذبات بھی ابھر سکتے ہیں۔ نو عمری کے ان پسندیدگی کے خیالات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ اکثر لڑکیاں لڑکیوں کی نسبت شرمیلی، محتاط اور منذ بذب ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بعض لڑکیاں بھی عارضی پسندیدگی کے جذبات میں پھنس جاتی ہیں۔ یہ جذبات ہوا کے تیز جھونکے کی طرح آتے ہیں اور گزر بھی جاتے ہیں۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس نازک دور میں وہ اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اعتماد پیدا کریں۔ اس عمر کے بچوں کے والدین کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان کے نوجوان لڑکے سنسان گھڑیوں Odd Hours میں کہاں ہوتے ہیں؟ یعنی دو سے چھ بجے شام تک …. اور ان کے دوستوں کا قہ کس قسم کا ہے ؟…. اس دور کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتداء سے سچ بولنا سکھائیں اور خود بھی اس پر عمل کریں کیونکہ سچ ہی سے تمام اچھائیوں کا سفر شروع ہوتا ہے اور جھوٹ سے تمام برائیاں جنم لیتی ہیں …. اپنے بچوں پر اعتبار بھی کریں اور ان کے اعتبار کو قائم رکھنے کے لئے اپنے اندر بھی تبدیلی لائیں، یہ اعتبار بچپن سے قائم رہا تو لڑکپن کے اس دور میں نہ تو بچوں کو والدین سے جھوٹ بولنا پڑے گا اور نہ ہی والدین شک اور وسوسوں میں مبتلا ہوں گے …. لڑکپن کے اس دور میں اکثر ٹین ایجرز کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ جب میں مطالعہ شروع کرتا یا کرتی ہوں تو مجھے بار بار چکر آتے ہیں۔ اکثر نو بالغ پڑھائی کے دوران اس طرح کے بعض مسائل کا سامنا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اندر تعلیم سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی پیدا ہونے لگتی ہے۔ کئی ذہنی مسائل کی وجہ سے ان کی یکسوئی کم ہونے لگتی ہے اور خصوصاً پڑھائی کے دوران تو بعض طلباء کا ذہن مستقل منتشر رہتا ہے۔ کئی نوجوان اپنے بعض دوستوں کے مشورہ سے سکون آور اشیاء کا استعمال بھی کرنے لگتے ہیں۔ حافظے کی خرابی کی شکایت اکثر ان نو عمروں کو رہتی ہے جو اس صلاحیت کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً مطالعہ تو کر رہے ہیں، مگر توجہ کسی اور جانب ہے۔ یہ ہے تو جہی اور عدم د چاپی، دونوں مل کر کسی بھی نکلتے کو ذہن نشین نہیں ہونے دیتیں۔ جس چیز کی ذہن میں اہمیت نہ ہو تو حافظہ اسے قبول نہیں کرتا۔
پندرہ سولہ اور سترہ سال کی عمر :
یہ دور دلکش اور آزادی کے احساس کا دور ہوتا ہے۔ اس دور کے نوجوان میں جوش اور تیزی کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے۔ اس دور میں کوئی پر جھکائے نہایت خاموشی سے خیالوں کی دنیا میں گم ہے۔ کوئی بہترین لباس زیب تن کئے بار بار بالوں کو سنوارتے ہوئے تیز قدموں سے چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو مایوسی اور غم و فکر کی تصویر بنے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کچھ ٹولیوں کی شکل میں چوراہوں اور پارکوں میں براجمان نظر آتے ہیں، جہاں قہقہے گونجتے ہیں، جوش اور ولولوں سے بھر پور جملے سنائی دیتے ہیں…. اس عمر کے نوجوانوں کی تربیت کے لیے اساتذہ کا کر دانہایت اہم ہے۔ اساتذ وان نوجوانوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ یہ جوش اور جنون قدرت کی عطا کردہ توانائیاں ہیں۔ چنانچہ نو جوانی کے اس جوش کو مثبت اور تعمیری کاموں کی طرف موڑ دیا جائے تو اس کے اثرات ان کی پوری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ عمر کے اسی دور میں اسکول کی تعلیم مکمل ہوتی ہے اور کالج میں داخلہ ہوتا ہے۔ کالج کی زندگی اسکول کے معمولات سے مختلف ہوتی ہے۔
اسکول کے ڈسپلن کی پابندیوں سے اچانک آزادی کے دور میں داخل ہونا اکثر کے لئے ایک دلکش تجربہ ہوتا ہے۔ فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے جسمانی طور پر کچھ تبدیلیاں بھی ساتھ ہی ساتھ واقع ہو رہی ہوتی ہیں، ان کے تحت ہی صنف مخالف میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کشش سے ہر نوجوان متاثر ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی ہمت اور طاقت کو قائم رکھیں اور اسے ایسی قوت میں بدل دیں جو کہ انہیں ایک سر گرم، پر جوش اور کامیاب انسان کی شکل میں ڈھال سکے۔
اس عمر میں اکثر لڑکیاں لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ سنجیدہ اور صابر ہوتی ہیں لیکن وہ مدح و ستائش یا سرزنش کا بہت زیادہ اثر لے لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں بردباری اور ٹھہراؤ پر مبنی رویوں کی جانب مائل ہوتی ہیں، برخلاف اس کے لڑکے اکثر جوش اور سر گرمی دکھانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں بڑے لوگوں یا استادوں کی نصیحت و رہبری کو بغیر کسی اعتراض کے قبول کر لیتی ہیں لیکن بہت سے لڑکے سوالات کیے بغیر دوسروں کی رہنمائی کو قبول نہیں کرتے۔
اس عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ ان کے لڑکے یا لڑکی کی آرزوئیں اور سرگرمیاں پہلے گھر اور اسکول کی چہار دیواری تک محدود تھیں، اب ان کی دنیا وسیع ہو گئی ہے۔ باہر کی دنیا مظاہر ان کے لئے زیادہ جاذب نظر و توجہ ہوگئے ہیں۔
ان نوجوانوں کے دل میں گھر اور خاندان کی حدود سے آگے کی دنیا کو دریافت کرنے کا جو جذبہ پایا جاتا ہے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ اور سرپرست ان کی خواہشات اور آرزوؤں کو سننے کے لئے تیار و آمادہ ہیں تو ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اپنے والدین کی نصیحتوں اور ان کی اچھی باتوں پر بخوشی عمل بھی کرتے ہیں۔
گھر میں ایسا ماحول تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے جہاں رشتوں کا تقدس اور احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ خصوصاً نوجوان لڑکوں کے ذہن میں یہ بات نقش ہو جائے کہ عورت کا ہر روپ قابل احترام ہے اور ایسا عموماً ان گھرانوں میں ہوتا ہے جہاں شوہر اپنی شریک حیات کی بہت عزت کرتے ہیں۔
یہ دور تبدیلیوں کا دور ہوتا ہے۔ تیز رفتار نشو و نما کے اس دور میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں توانائی سے بھر پور ہوتے ہیں، جسمانی سرگرمیوں کے ساتھ مناسب نشوونما کے لئے کیلوریز، پروٹین، وٹامنز اورمعدنیات کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کھانے پینے کی عادات عموماً بے ربط اور غیر منظم ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اس بات سے بھی آگاہ نہیں ہوتے کہ انہیں صحت مند اور فعال رہنے کے لئے کس قسم کی غذاؤں کی ضرورت ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بہت سے نوجوان لڑکے وٹا من اے ، فولک ایسڈ اور پروٹین ضروری مقدار سے بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ جس کے باعث وہ صحت کے بعض مسائل میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ٹین ایجرز کے لئے درکار غذائیت اور کیلوریز کی مقدار یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار ان کی جسمانی سر گرمیوں اور کھیل کود کے مشاغل پر ہوتا ہے۔ اکثر نوجوانوں میں کھانے پینے کی عادات غیر صحت مند دیکھی گئی ہیں، خصوصاً لڑکیوں کی حالانکہ انہیں اپنے چہرے کی خوبصورتی کا بہت زیادہ خیال رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تین چوتھائی لڑکیاں خون کی کمی اور ان میں سے نصف تعداد کیلشیم کی کمی میں مبتلا ہے۔
طبی ماہرین کی ریسرچ کے مطابق ٹین ایجرز کی خوراک متوازن ہونی چاہیے تاہم اضافی پروٹین، کیلوریز وٹامنز اور معدنیات کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انہیں دودھ اور دودھ کی مصنوعات ضرور استعمال کرنی چاہئیں۔ توانائی سے بھر پور غذا اور مشروبات کے ساتھ تازہ سبزیاں اور پھل بھی زیادہ مقدار میں کھانا چاہیے۔ ٹین ایجرز کو چاہیے کہ وہ فاسٹ فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کا زیادہ استعمال نہ کریں۔ بعض ٹین ایجرز میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں اپنے بڑوں سے مختلف طور طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو غذا کے سلسلے میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر نوجوان پسندیدگی کی بنیاد پر مختلف تجربات بھی کرتے ہیں، پھر سالہا سال تک ان کے اثرات میں جکڑے رہتے ہیں، اس قسم کے تجربات کو دل لبھانے والے تجربات بھی کہا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کا جنون دل کو خوش کرنے کے بجائے گویا مخطرات سے دوستی کرنے پر بھی اکساتا ہے مثلاً تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلانا، ایک پہیہ پر موٹر سائیکل چلا کر اپنی اور دوسروں کی زندگی کو مخطرہ میں ڈالنا…. وغیر ہ وغیرہ۔ وقت گزاری کے لیے خطرے کا سامنا کرنے کی بجائے تعمیری کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر بھی نئے نئے تجربات کئے جاسکتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ ان تجربات کے دوران جہاں زندگی کے بعض تعجب خیز پہلو سامنے آتے ہیں، وہیں بہت سے لمحات بھی اہم ہو جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان تجربات سے نوجوان اپنی بہت سی خامیوں پر بھی قابو پانے لگتے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2022